الجمعة، 10 يوليو 2020
اربعین تدبر قرآن - ایک تعارف
قرآنیات کے حوالے سے اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدر آباد دکن سے چھوٹے چھوٹے رسائل و کتب کا اہتمام شروع کیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں ہماری تحریک پر فضائل قرآن پر امام یوسف بن اسمعیل نبھانی شافعی علیہ الرحمہ کے اربعین کا ترجمہ مولانا اشرف رضا ہاشمی اشرفی نے "اربعین برکات قرآن" کے نام سے کیا، مولانا قاری سلیم صفدر قادری نے "اربعین فضائل حفظ قرآن" اور "اربعین فضائل حسن قراءت" ترتیب پائی۔ "قرآن اور مستشرقین" کے نام سے ایک تحقیقی کتاب مولانا عرفان التجانم مصباحی ازہری صاحب نے لکھی۔ مولانا قاری سلیم صفدر قادری صاحب سے "تاثیر قرآن" پر ۲۵۰ صفحات کی ایک اچھی کتاب تیار کروائی؛ پھر انہی کے ذریعے قرآن پاک میں وارد کم و بیش ۵۰ ایمان افروز آیات جن کا مرکزی عنوان "آمنوا و عملوا الصلحت" ہے، جس میں اعمال صالحات کی طرف دعوت و ترغیب دلائی گئی ہے، ان آیات کی مختصر تفسیر اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد و معلومات پر ۲۰۰ صفحات کی ایک علمی و اصلاحی کتاب تیار ہوئی۔ الحمدللہ رب العالمین۔
اسی دوران ہمارے قریبی دوست و مشیر علامہ مولانا توحید احمد علیمی طرابلسی صاحب نے "تدبر قرآن" کی اہمیت و افادیت کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس عنوان پر بھی اربعین جمع ہونا چاہیے، میں نے انہی سے کہا کہ آپ ہی کردیں اس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے۔ مولانا توحید احمد علیمی صاحب نے عرق ریزی سے احادیث و روایات جمع کرلی، ان احادیث کا ترجمہ کیا، ان سے حاصل ہونے والے فوائد و نکات ترتیب دیے، اور اس مجموعہ پر ایک فکر انگیز مقدمہ بھی رقم فرمایا جو ان شاءاللہ تعالی بہت پسند کیا جائے گا۔
احباب سے دعاؤں کی گزارش ہے!
بشارت علی صدیقی قارری اشرفی
اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدر آباد دکن۔
الخميس، 9 يوليو 2020
مسند الربیع بن صبیح السعدی البصری - ایک تعارف
حضرت ابوحفص ربیع بن صبیح سعدی بصری(م: 160ھ/777ء)، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے معاصرین میں سے تھے، آپ کا شمار تبعِ تابعین اور بلند پایہ صدوق محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ کی ذات عبادت اور جہاد بالسیف کی پیکر تھی۔ یہاں آپ کا ۔مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
بحیثیت مصنف
آپ کے حالات میں لکھا ہے:
*(اَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ فِي الْاسْلَامِ)*
*یعنی اسلام میں پہلی کتاب آپ نے تصنیف کی۔*
یہ آپ کی ان خصوصیات اور خدمات میں سے ہے، جس کی بناء پر آپ کو تاریخ اسلام میں ایک بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔
ہاں، یہ بات بھی ہے کہ کچھ دوسرے دیگر معاصرین کو بھی یہ شرف حاصل ہوا۔ *مگر اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہل بصرہ میں آپ نے ہی سب سے پہلے کتاب تصنیف کی ہے۔*
*بعض نے لکھا ہے کہ احادیث کو ابواب کے تحت درج کرنے میں بھی آپ اولیت رکھتے ہیں۔*
*# بحیثیت محدث:*
آپ حضرت امام حسن بصری اور حضرت عطاء کے شاگردوں میں سے ہیں۔
آپ کے تلامذہ میں حضرت سفیان ثوری، حضرت وکیع بن الجراح اور ابن مہدی جیسے بلند پایہ محدثین شامل ہیں۔
*# بحیثیت صوفی:*
*خانقاہ ”عبادان“*(نزد بصرہ)، اسلام کی اوّلین خانقاہوں میں شمار کی جاتی ہے۔ *عبادان* ایک *سرحدی پوسٹ/قلعہ* بھی تھا، جہاں سے علما، صوفیا اور محدثین اسلامی خلافت کے حدود کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے، مگر یہ مقام تاریخ اسلام میں ایک عظیم خانقاہ اور صوفیہ کی محدثانہ و مجاہدانہ خدمات کی بنا پر مشہور ہوا۔
اس کے بانی حضرت عباد بن حصین علیہ الرحمہ تھے جن کی تعریف وبہادری کے چرچے سیدنا امام حسن بصری علیہ الرحمہ بھی کیا کرتے تھے۔ اس لیے اسے *عبادان* کہا جاتا ہے۔
اس خانقاہ کو مستحکم کرنے اور پروان چڑھانے میں *امام ربیع بن صبیح علیہ الرحمہ* کا اہم کردار رہا۔
ان کی بدولت عالم اسلام سے زہاد و عباد یہاں کا سفر کرتے تھے۔ *حضرت سیدنا بشر بن حارث علیہ الرحمہ* جیسے امام طریقت نے بھی *عبادان* کا سفر کیا ہے۔
اس خانقاہ کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی، کہ یہاں درس حدیث کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا اور اکابر محدثین اس خانقاہ کا سفر کیا کرتے تھے، چناں چہ منقول ہے *امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ* جیسی عظیم مجتہد شخصیت نے بھی طلب حدیث کے لیے *عبادان* کا سفر کیا تھا۔
*# بحیثیت مجاہد وغازی:*
تاریخی کتب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک عظیم مجاہد وسپہ سالار بھی تھے، اسلام کی اشاعت اور اسلامی خلافت کی حفاظت کے لیے جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔
سب سے پہلے غازی ہندوستان محمد بن قاسم علیہ الرحمہ (92ھ/712ء) سندھ باب الھند تشریف لائے۔
اس کے بعد اسلام کی اشاعت کے لیے جو غازیوں کے اولین دستے آئے، ان میں آپ کا دستہ بھی تھا۔
تاریخ طبری سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسا ہی ایک فوجی دستہ 160ھ میں "بھاڑ بھوت" پہنچا جو گجرات کے شہر *"بھروچ"* کے جنوب میں ایک بندرگاہ (پورٹ) ہے۔ اس فوجی دستہ میں لگ بھگ ۱۰۰۰ مجاہدین تھے، جس کے سپہ سالاری کے فرائض عبد الملک بن شہاب مسمعی انجام دے رہے تھے۔
کئی دن تک ہونے والے محاصرے اور جنگ کے بعد مسلمانوں کو فتح ونصرت حاصل ہوئی۔ فتح یابی کے بعد جلد واپسی ممکن نہ ہوسکی، کیوں کہ انھیں دنوں سمندری طوفان آگیا تھا، سوء اتفاق اسی وقت ایک "وبا" بھی پھیل گئی، اور غازیان ہند کی ایک بڑی تعداد اس میں شہید ہوگئی، جس میں امام ربیع بن صبیح کی ذات مقدس بھی تھی۔ *اس طرح سر زمین ہند کو سیدنا امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ کے مدفن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔*
شہادت کا یہ واقعہ 160ھ/777ء کا ہے۔
*مسند الربیع بن صبیح السعدی البصری کا تعارف:*
حضرت سیدنا امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ کی زندگی اور آپ کی مرویات پر مختلف جہات سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ خود امام ربیع کی کتاب جو آپ نے تصنیف فرمائی تھی، اب ہمارے درمیان محفوظ نہ رہ پائی۔ آپ کی حیات وخدمات کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ بطورِ تبرک ہی کچھا لکھا ہوا ملتا ہے، اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے؛ علما وصوفیا اور محدثینِ ہند کی محبت دل میں رچائے ہوئے۔۔۔۔۔۔
*ہمارے عزیز، علامہ مولانا توحید احمد علیمی طرابلسی صاحب قبلہ* نے اس کام کی طرف توجہ دی، اور اسلامی دنیا کے پہلے مصنف پر پہلی دفعہ تفصیلی طور پر لکھنے کا شرف حاصل کیا۔ *یہ امام ربیع علیہ الرحمہ کا حق بھی تھا کہ اس طرح کا کام منظر عام پر لایا جائے جس میں آپ کی حیات اور آپ کی مرویات ایک جگہ جمع ہوجائیں*
صحاح، مسانید، معاجم، علل، غرائب، طبقات، تراجم، تاریخ اور سیر وغیرہ سینکڑوں کتب سے *امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ* کی روایات کو جمع کیا گیا ہے، اور اس طرح آپ علیہ الرحمہ کی مسند *"مسند الربیع بن صبیح السعدي البصري"* پائے تکمیل تک پہنچی۔
اس طرح مولانا توحید احمد علیمی صاحب نے *امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ* کی *تصنیف* کو کسی طرح دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ *حضرت امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ* کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے، جس میں آپ کی جلالت علمی پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز آپ کے شیوخ وتلامذہ کی حیات طیبہ پر بھی مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے، آپ کا یہ سوانحی خاکہ تقریبا 125 صفحات پر محیط ہے، جو خود ایک بڑا علمی کام ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ *حضرت امام ربیع بن صبیح سعدی علیہ الرحمہ*
کی مرویات پر مشتمل ہے، جس میں 602 روایات جمع کی گئی ہیں۔
کل کتاب کی ضخامت 350 صفحات کے قریب ہے۔
*علامہ مولانا توحید احمد علیمی صاحب* پوری جماعت اہل سنت کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں اس موضوع پر کام کیا، اور شائقین علوم حدیث کی خدمت میں ایک علمی وتاریخی تحفہ پیش کیا۔ *اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ علمی کام کوئی بڑے یونی ورسٹی کے پی ایچ ڈی مقالہ سے کم بھی نہیں۔*
اس سے قبل مولانا کے مختلف علمی مقالات کئی معتبر جرائد سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف نے شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی کتاب *"تحقیق الإشارۃ إلی تعمیم البشارۃ"* پر بھی عربی زبان میں تحقیقی کام کیا ہے، ان شاء الله تعالی یہ تحقیقی کام *دار اشرف البرکات للنشر والتوزیع (حیدرآباد/لکناؤ)* سے عن قریب شائع ہونے والا ہے۔
*دار اشرف البرکات* سے گزشتہ سال فاضل جلیل علامہ ڈاکٹر انوار احمد بغدادی صاحب قبلہ(پرنسپل، دار العلوم علیمیہ، جمداشاہی، انڈیا) کی عربی کتاب *برکات الصوفیہ فی شبہ القارۃ الھندیۃ* شائع ہوکر منظر عام پر آئی تھی جو کافی مقبول ہوئی اور قدر کی نگاہ دیکھی گئی، عقیدت و محبت سے پڑھی گئی۔
ان شاءاللہ تعالی، عن قریب، امام اہل سنت شاہ احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کے کچھ عربی رسائل، امام فضل حق چشتی خیر آبادی علیہ الرحمہ کا عربی رسالہ *الروض المجود"*، محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کا رسالہ *التحقیق البارع فی حقوق الشارع*، صدر الافاضل سید شاہ نعیم الدین قادری کے چند علمی رسائل کے ساتھ ساتھ کچھ ہندی علما ومحدثین کے *ثبت* بھی منظر عام پر لائے جائیں گے۔
احباب سے دعاؤں کی گزارش ہے!
*تعارف:*
*بشارت علی صدیقی قادری اشرفی*
*ترسیل کار:*
*# دار اشرف البرکات*
*# اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن*
الاشتراك في:
الرسائل (Atom)