الاثنين، 11 أكتوبر 2021
اسلام میں علم کی اہمیت وافادیت
*اسلام میں علم کی اہمیت وافادیت*
کاتب..................... أبو الفؤاد توحيد احمد طرابلسی
...........★★★.............
حديث شریف:
حضرت ابو ہرﻳﺮﺓ- ﺭضی ﺍﻟﻠﻪ تعالی ﻋﻨﻪ -فرماتے ہیں کہ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ- ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ تعالی ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ -نے ارشاد فرمایا :
)) ﻣَﻦْ ﺗَﻌَﻠَّﻢَ ﻋِﻠْﻤًﺎ ﻣِﻤَّﺎ ﻳُﺒْﺘَﻐٰﯽ ﺑِﻪِ ﻭَﺟْﻪُ ﺍﷲِ، ﻟَﺎ ﻳَﺘَﻌَﻠَّﻤُﻪُ ﺇِﻻَّ ﻟِﻴُﺼِﻴْﺐَ ﺑِﻪِ ﻋَﺮَﺿًﺎ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ,ﻟَﻢْ ﻳَﺠِﺪْ ﻋَﺮْﻑَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﻘِﻴَﺎﻣَﺔ .((
)مسند امام احمد بن حنبل :2/338 ,حديث نمبر :8438 ,سنن اﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﻦ ,ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻌﻠﻢ ,ﺑﺎﺏ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻟﻐﻴﺮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽ :3/323 ,حديث نمبر : 3664 ، سنن ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ ,ﺍﻟﻤﻘﺪﻣﺔ ,ﺑﺎﺏ ﺍﻻﻧﺘﻘﺎﻉ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﻭﺍﻟﻌﻤﻞ ﺑﻪ :1/92 , حديث نمبر :252 .(
"ﺟﺲ ﻧﮯ ﻋﻠﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ الله عزوجل ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ، مگر ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﺩﻧﯿﺎ کا ﻣﺎﻝ کمانے ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ، ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ روز ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ سے محروم ہوگا-"
*اس حديث سے مستفاد اہم نکات:*
★اس حديث میں" عرض "کا لفظ ایا ہے",عرض" کو اگر راء کے زبر سے پڑھا جائے تو اس کا معنی دنیاوی مال ومتاع ہوتا ہے ,جس سے نیک وبد سبھی استفادہ کرتے ہیں ,جب کہ راء کو سکون سے پڑھنے کی صورت میں روپیہ پیسہ کے علاوہ دوسرے مال ومتاع مقصود ہوتے ہیں ",عرض "اس لیے کہا جاتا کیونکہ وہ" ﺯﺍﺋﻞ ﻏﻴﺮ ﺑﺎﻕ "ہوتا ہے-
اللہ تعالی نے دنیا کی خواہش سے منع فرمایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے ,ﻓﺮﻣﺎﻥِ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ }:ﻗُﻞْ ﻣَﺘَﺎﻉُ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ﻗَﻠِﻴﻞٌ ﻭَﺍﻟْﺂﺧِﺮَﺓُ ﺧَﻴْﺮٌ ﻟِّﻤَﻦِ ﺍﺗَّﻘَﻰٰ.{
اہل ایمان کو جگہ جگہ فکر اخرت کی ترغيب دلائی گئی ہے } ,ﻭَﻣَﻦْ ﺃَﺭَﺍﺩَ ﺍﻵَﺧِﺮَﺓَ ﻭَﺳَﻌَﻰ ﻟَﻬَﺎ ﺳَﻌْﻴَﻬَﺎ ﻭَﻫُﻮَ ﻣُﺆْﻣِﻦٌ ﻓَﺄُﻭﻟَﺌِﻚَ ﻛَﺎﻥَ ﺳَﻌْﻴُﻬُﻢْ ﻣَﺸْﻜُﻮﺭًﺍ.{
★اس حديث میں" عرف الجنة "کا لفظ ہے, جس کا معنی" جنت کی خوشبو "ہوتا ہے, حضرت امام احمد بن حنبل نے اپنی روایت میں اس لفظ کی تشریح کی ہے ,فرماتے ہیں " :ﻗَﺎﻝَ ﺳُﺮَﻳْﺞٌ ﻓِﻲ ﺣَﺪِﻳﺜِﻪِ : ﻳَﻌْﻨِﻲ ﺭِﻳﺤَﻬَﺎ ."
★اپ علیه الصلاة والسلام نے کسی خاص علم کی قید نہیں فرمائی ,مسلمان کو چاہیے کہ ہر علم کی حصوليابی کے لیے سعی کرے ,اور انسانیت کو فائدہ پہونچائے , جس کا ان شاء الله تعالی اسے عظيم اجر ملے گا ,کیونکہ یہ باب احسان سے ہے ,الله تعالی ارشاد فرماتا ہے :
}ان الله لا يضيع اجر المحسنين.{
"ﯾﻘﯿﻨﺎ اللہ تعالی احسان کرنے والوں ﮐﺎ ﺍﺟﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ہے"-
★خلوص نیت سے علم کا حصول کرے ,ہر عمل کی یہ پہلی سیڑھی ہے ,اسی پہ سارے اعمال کا دارومدار ہے ,ہمیشہ رضائے مولی کو پیش نظر رکھے-
★ جس علم کو رضاے الہی کے لیے حاصل کیا ہے اسے کمائی کا ذريعہ نہ بنائے ,ہمیشہ علم کی پاکیزگی کو برقرار رکھے -
★ وہ علم جسے للہیت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے اسے ذريعہ معاش یا حصول دنیا کا وسیلہ بنانے والا روز قیامت جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا-
★جنتی خوشبو کئی سال مسافت کی دوری سے سونگھی جا سکتی ہے صحابہ کرام رضوان الله تعالی اجمعین نے کئی احاديث روایت کی ہے جس میں مختلف مسافت کا ذكر ہے چانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
"ﻭﺇﻥ ﺭﻳﺤﻬﺎ ﻟﻴﻮﺟﺪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺳﺒﻌﻴﻦ ﺧﺮﻳﻔﺎ ."
"یقینا جنت کی خوشبو ستر سال کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے-"
امام طبرانی نے" المعجم ﺍﻷﻭﺳﻂ "میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
"ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﻣﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ "
"سو سال کی مسافت سے"
اور حضرت ابو بکرہ سے امام طبرانی نے جو روایت کی ہے اس میں پانچ سو سال ہے" ,موطا "کی ایک حديث میں بھی پانچ سو سال کا قول مذكور ہوا ہے ,اس حديث کے مطابق:
"ﺇﻥ ﺭﻳﺤﻬﺎ ﻳﻮﺟﺪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ."
"ﺍلمعجم الصغير "اور" مسند ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ "میں ایک ہزار سال کا قول بھی ایا ہے, " ﺇﻥ ﺭﻳﺢ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻳﺪﺭﻙ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺃﻟﻒ ﻋﺎﻡ ."
بعد مسافت کا اختلاف اعمال صالحہ کی وجہ سے ہے ,وہ نفوس قدسیہ جن کے درجات بلند ہیں ,وہ ہزار سال کی دور سے ہی اس کا ادراک کر لیں گے -
شیخ ابن عربی فرماتے ہیں :
"ﺭﻳﺢ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻻ ﻳﺪﺭﻙ ﺑﻄﺒﻴﻌﺔ ,ﻭﻻ ﻋﺎﺩﺓ, ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺪﺭﻙ ﺑﻤﺎ ﻳﺨﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺇﺩﺭﺍﻛﻪ, ﻓﺘﺎﺭﺓ ﻳﺪﺭﻛﻪ ﻣﻦ ﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺳﺒﻌﻴﻦ ,ﻭﺗﺎﺭﺓ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ .
چانچہ جنت کی خوشبو کو خواص دنیا میں ہی محسوس کر لتیے ہیں اور نیک لوگوں کو روح کے قفس عنصری سے نکلتے ہی اس کی خوشخبری دے دی جاتی ہے ,نیکوں کی روحوں سے کہا جاتا ہے " :ﺍﺧْﺮُﺟِﻲ ﺣَﻤِﻴﺪَﺓً، ﻭَﺃَﺑْﺸِﺮِﻱ ﺑِﺮَﻭْﺡٍ، ﻭَﺭَﻳْﺤَﺎﻥٍ، ﻭَﺭَﺏٍّ ﻏَﻴْﺮِ ﻏَﻀْﺒَﺎﻥ."
سوال قبر کے بعد نیکوں کو جو نیگ ملتا ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ" : ﻭَﺍﻓْﺘَﺤُﻮﺍ ﻟَﻪُ ﺑَﺎﺑًﺎ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ . ﻗَﺎﻝَ : ﻓَﻴَﺄْﺗِﻴﻪِ ﻣِﻦْ ﺭَﻭْﺣِﻬَﺎ، ﻭَﻃِﻴﺒِﻬَﺎ ."
★جنت کی خوشبو جس کی بشارت قران وحديث میں ہے اس سے مبینہ شحص کے علاوہ کئی دوسرے لوگ بھی محروم رہیں گے ,جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
*معاہد کا قاتل)* :ﻣَﻦْ ﻗَﺘَﻞَ ﻣُﻌَﺎﻫَﺪًﺍ ﻟَﻢْ ﻳَﺮَﺡْ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔِ.(رﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ .
"ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ معاہد ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺎ، ﻭﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ"-
*نسب بدلنے والا* ):ﻣَﻦِ ﺍﺩَّﻋَﻰ ﺇِﻟَﻰ ﻏَﻴْﺮِ ﺃَﺑِﻴﻪِ ﻟَﻢْ ﻳَﺮَﺡْ ﺭِﻳﺢَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ.( رﻭﺍﻩ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ .
"ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا-"
*نصیحت نہ کرنے والا حاكم* ):ﻣَﺎ ﻣِﻦْ ﻋَﺒْﺪٍ ﺍﺳْﺘَﺮْﻋَﺎﻩُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺭَﻋِﻴَّﺔً، ﻓَﻠَﻢْ ﻳَﺤُﻄْﻬَﺎ ﺑِﻨَﺼِﻴﺤَﺔٍ، ﺇِﻟَّﺎ ﻟَﻢْ ﻳَﺠِﺪْ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔِ.(ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺸﻴﺨﺎﻥ .
"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺲ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﻣﺎ تحت رعیت کر ﺩﮮ ,ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ,ﻭﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ-"
*کالا خضاب استعمال کرنے والا)* : ﻳَﻜُﻮﻥُ ﻗَﻮْﻡٌ ﻓِﻲ ﺁﺧِﺮِ ﺍﻟﺰَّﻣَﺎﻥ,ِ ﻳَﺨْﻀِﺒُﻮﻥَ ﺑِﻬَﺬَﺍ ﺍﻟﺴَّﻮَﺍﺩِ ﻛَﺤَﻮَﺍﺻِﻞِ ﺍﻟْﺤَﻤَﺎﻡ,ِ ﻟَﺎ ﻳَﺠِﺪُﻭﻥَ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ .(رواہ ابو داود.
"ﺁﺧﺮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻡ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﻮ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﻮﭨﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻻ ﺧﻀﺎﺏ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﻮﮔﯽ ، ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﻨّﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ-"
*بلا سبب طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت* * ):ﺃَﻳُّﻤَﺎ ﺍﻣْﺮَﺃَﺓٍ ﺳَﺄَﻟَﺖْ ﺯَﻭْﺟَﻬَﺎ ﺍﻟﻄَّﻠَﺎﻕَ ﻣِﻦْ ﻏَﻴْﺮِ ﺑَﺄْﺱٍ ﻓَﺤَﺮَﺍﻡٌ ﻋَﻠَﻴْﻬَﺎ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔُ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ.(ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ .
"ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ بلا ﺳﺒﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ,ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ-"
*والدین کا عاق کیا ہوا اور صلہ رحمی نہ کرنے والا* ):ﻭَﺍﻟﻠَّﻪِ ﻻ ﻳَﺠِﺪُ ﺭِﻳﺤَﻬَﺎ ﻋَﺎﻕٌّ ، ﻭَﻻ ﻗَﺎﻃِﻊُ ﺭَﺣِﻢٍ .( ﺻﻔﺔ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻷﺑﻲ ﻧﻌﻴﻢ.
الاشتراك في:
الرسائل (Atom)