الاثنين، 26 أغسطس 2019
السبت، 17 أغسطس 2019
الخميس، 15 أغسطس 2019
ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء کے روزہ پر ایک نظر
ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء کے روزہ پر ایک نظر
کاتب:۔۔ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
🍁🥀💐🌺🌻🌼🌸🍂🌹🌿🌺🌲🍀
توطئہ:
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه إلى يوم الدين.
أما بعد،
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزہ فرض قرار دیا ہے، یہ اسلام کے پانچ بنیادی رکنوں میں سے ایک اہم رکن ہے۔
رمضان المبارک کے علاوہ بھی دیگر ایام میں روزوں کا حکم دیا گیا ہے، مگر ان کا حکم رمضان المبارک کے روزوں کی طرح نہیں ہے، لوگوں کو ان پر ابھارا گیا ہے، اور ان کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، انھیں فرض قرار نہیں دیا گیا ہے۔
فضائل صیام میں چند احادیث صحیحہ:
جیسا کہ سابق میں گزرا کہ فرض روزوں کے علاوہ دیگر روزوں کی بڑی فضیلت ہے، اس کے ثبوت میں چند احادیث مبارکہ پیش ہیں:
(1) عن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه-، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلا بَاعَدَ اللَّهُ، بِذَلِكَ الْيَوْمِ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا». [صحيح مسلم].
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن الله کی راہ میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس دن کے سبب اس کے چہرہ کو جہنم سے ستر سال کی مسافت پر کر دیتا ہے"۔
(2) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه-، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم-، قَالَ: «مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا، كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَاْلأرْضِ». [سنن ترمذی].
حضرت ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن راہ خدا میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس کے اور جھنم کے درمیان فاصلہ فرما دیتا ہے، جیسے آسمان اور زمین کے درمیان ہے"۔
(3) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه- قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ.
قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عَدْلَ لَهُ».
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ.
قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عدْلَ لَهُ».
حضرت ابو امامہ باہلی -رضی الله عنہ- سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں عرض گزار ہوا: "اے الله کے رسول، مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیں۔
آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: تم روزہ کو لازم پکڑو، بے شک اس کا کوئی بدیل نہیں"۔
ماہ محرم الحرام کے روزے:
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا ماہ ہے، اور حرمت والا بھی ہے، جس کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے:
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ}. [التوبة36].
"بے شک الله کے نزدیک مھینوں کی گنتی بارہ ماہ ہے کتاب الله میں، اس روز آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، تو ان ماہ میں خود پر ظلم نہ کرو"۔
متفق علیہ حدیث میں ہے:
«إن الزمان قد استدار كهيئتهِ يوم خلق الله السماوات والأرض، السنةُ اثنا عشر شهرًا، منها أربعةُ حُرُم، ثلاثٌ متوالياتٌ: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم، ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان».
"بے شک زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر آگیا، جس پر وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن تھا۔
سال بارہ ماہ پر مشتمل ہے، اس میں سے چار ماہ حرمت کے ہیں، تین ذی القعدہ ذی الحجہ اور محرم پے در پے ہیں، اور رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے"۔
اس ماہ کے روزوں کی بڑی ہی فضیلت ہے، حدیث شریف میں ہے:
«أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ. وَأَفْضَلُ الصََّلاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صََلاةُ اللَّيْلِ». [صحيح مسلم].
"رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ خدا محرم الحرام کا ہے، اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تھجد ہے"۔
اس حدیثِ مبارکہ میں «شھر» کی اضافت «الله عزوجل» کی جانب تعظیما کی گئی ہے، جس سے اس ماہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
کیا ماہ محرم الحرام کے مکمل روزے رکھے جائیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اس ماہ کے کبھی مکمل روزے نہ رکھے، حضرت عبد اللہ بن شقیق فرماتے ہیں:
"قُلْتُ لِعَائِشَةَ - رضي الله عنها: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟
قَالَتْ: مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلا رَمَضَانَ، وََلا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ -صلى الله عليه وسلم-". (صحيح مسلم).
"میں نے حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- سے عرض کیا: کیا رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- مکمل ایک ماہ روزے دار ہوتے تھے؟"
حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- نے فرمایا: "رمضان کے علاوہ پورے ماہ انھوں نے روزہ نہیں رکھا، اور نہ ہی مکمل مھینہ بغیر روزہ کے گزارا، یہاں تک کہ اس میں سے چند دن روزہ رکھتے، حتی کہ آپ وصال فرما گئے"۔
عاشوراء کا روزہ:
عاشوراء عاشر سے بنا ہے، جس کا معنی دسویں کے ہے، "عاشوراء کا روزہ" یعنی "دسویں محرم الحرام کا روزہ" کو کہتے ہیں۔
"عاشوراء" کا یہ لفظ الف ممدودہ کے ساتھ ہے، "عاشورہ" پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے، درست نہیں ہے۔ [حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد آر صفحہ 691]۔
یہ روزہ عربوں میں ایام جاہلیت سے متعرف تھا، اہل مکہ اسے رکھتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ -رضی الله تعالیٰ عنھا- فرماتی ہیں:
"كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية ، وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصومه في الجاهلية".
"جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- بعثت سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے"۔
امام قرطبی -رحمه الله تعالی- لکھتے ہیں:
"لعل قريشاً كانوا يستندون في صومه إلى شرع من مضى كإبراهيم عليه السّلام".
"شاید قریش اپنے اس روزہ میں سابقہ شرع پر اعتماد کرتے تھے، جیسے (شریعت) ابرہیم علیہ السلام"۔
مدینہ منورہ میں اہل خیبر اس دن کو بطورِ عید مناتے تھے، اور اسے "عيد الفصح" اور "عيد العبور" کہتے تھے۔
اہل خیبر کی اس عید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابو موسیٰ اشعری -رضی الله عنه- فرماتے ہیں:
"كَانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا٬ وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِيهِ حُلِيَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ".
"اہل خیبر "یوم عاشوراء" کو روزہ رکھتے تھے، اس دن عید مناتے، ان کی عورتیں اس روز زیور عمدہ لباس پہنتیں"۔
جب آپ -صلی الله علیه وسلم- کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی، آپ نے یہود کو اس طرح خوشیاں مناتے اور روزہ رکھتے پایا تو آپ نے لوگوں سے اس کی اصل دریافت کی، حدیث شریف میں ہے:
"قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ». [صحيح بخاری]
لوگوں نے کہا: یہ خوشی کا دن ہے، اس دن الله تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی، تو موسی -علیہ السلام- نے اس روز روزہ رکھا۔
رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے فرمایا: میں موسی -علیہ السلام- کا تم سے زیادہ حق دار ہوں۔
تو آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز کا روزہ رکھا، اور اس دن کے روزہ کا حکم دیا"۔
چنان چہ رسول کریم اور صحابہ کرام اس کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، حضرت ابن عباس -رضی الله تعالی عنھما- فرماتے ہیں:
"مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلا هَذَا الْيَوْمَ٬ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ". يَعْنِي: شَهْرَ رَمَضَانَ. (رواه بخاری).
"میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کا اہتمام کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یوم عاشوراء کے، اور اس ماہ کے، یعنی ماہ رمضان کے"۔
چوں کہ بعد فرضیت رمضان المبارک رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں باتوں کی اجازت مرحمت فرما دی تھی، اس کے باوجود بعض صحابہ شدت سے اس پر عمل پیرا تھے، خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب -رضی الله تعالیٰ عنہ- نے حارث بن هشام کو لکھا:
"ان غدا يوم عاشوراء فصم، وأمر أهلك ان يصوموا".
"کل یوم عاشوراء ہے، تو تم روزہ رکھو، اور اپنے اہل خانہ کو حکم دو کہ وہ روزہ رکھیں"۔
اس کے برعکس بعض صحابہ ترک پر بھی عمل پیرا تھے، صحیح بخاری میں ہے:
"وَكَانَ عَبْدُ اللهِ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- لَا يَصُومُهُ، إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ".
نویں محرم الحرام کا روزہ:
جب صحابہ کرام نے دسویں کا روزہ رکھا، اور اس میں اہل خیبر سے مشابہت پائی تو وہ بارگاہ نبوت میں عرض گزار ہوئے:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى.
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم -: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ».
"یا رسول الله، یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔
رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے"۔
حضرت ابن عباس -رضی الله تعالیٰ عنهما- فرماتے ہیں:
"فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-". [صحيح مسلم]
"آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- وصال فرما گئے"۔
"مسند أحمد" میں ہے کہ آپ -صلّى الله عليه وسلّم- نے فرمایا:
«لئن سَلِمْتُ إلى قابلٍ لأصومَنَّ التاسعَ»، يعني: عاشوراءَ.
"اگر میں سال آئندہ باحیات رہا تو ضرور نویں محرم کا روزہ رکھوں گا"۔
ایک روایت میں ہے:
«لئن عشت إلى قابل لأصومن التاسع».
چوں کہ آپ نے نویں کا روزہ نہ رکھا، مگر سال آئندہ کے لیے اس کا عزم فرمایا تھا، لھذا علماء فرماتے ہیں کہ نویں کے دن بھی روزہ رکھا جائے، حَكَم بن اعرج کہتے ہیں:
"انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا-، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ.
فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ.
فَقَالَ: "إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا".
قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَصُومُهُ؟
قَالَ: «نَعَمْ».
اس روز کے روزہ کو "صوم تاسوعاء" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امام نووی -رحمه الله تعالیٰ- تحریر کرتے ہیں:
"عاشوراءُ وتاسوعاءُ: اسمانِ ممدودان، هذا هو المشهور في كتب اللغة.
قال أصحابنا: عاشوراء هو اليوم العاشر من المحرَّم، وتاسوعاء هو التّاسع منه". [المجموع]
"عاشوراء اور تاسوعاء الف ممدودہ سے لکھے جانے والے دو اسم ہیں، کتب لغت میں یہی مشہور ہے۔
ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ عاشوراء محرم کا دسواں دن ہے، اور تاسوعاء وہ محرم کا نواں روز ہے"۔
نویں کا روزہ رکھنے میں کئی ایک حکمتیں ہیں، امام نووی -رحمہ الله- لکھتے ہیں:
"ذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجهاً:
أحدها: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر.
الثاني: أن المراد به وصل يوم عاشوراء بصوم، كما نهى أن يصام يوم الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون.
الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خشية نقص الهلال ووقوع غلطٍ، فيكون التّاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر.
"ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کرام نے نو محرم کے روزے کے مستحب ہونے کی حکمت میں کئی ایک وجوہات بیان کی ہیں:
پہلی: اس سے یھود کی مخالفت مراد ہے، وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔
دوسری: اس سے مقصود ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک روز کا اور روزہ بھی ملایا جائے، جیسا کہ رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے ممانعت فرمایا ہے۔ ان دونوں وجہوں کو خطابی اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے۔
تیسری: دسویں محرم کے روزہ میں احتیاط کے لیے کہ کہیں چاند کم دنوں کا نہ ہو، جس کی بنا پر غلطی ہوجائے اس لیے نو محرم کا روزہ رکھنا عدد میں دس محرم ہوجائے گا۔
اس دور میں یہودیوں کے یہاں قمری کیلینڈر رائج نہیں ہے، اور نہ ہی اس دن روزہ رکھنے کا کوئی اہتمام ہے، اس لیے نو تاریخ کو روزہ رکھنے کی اصل علت مفقود ہوگئی ہے، دس محرم کو روزہ رکھنا بھی کافی ہے۔
فضیلت صوم عاشوراء احادیث کی روشنی میں:
رمضان کی فرضیت سے قبل اسے واجب قرار دیا گیا تھا، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا، اس روزہ کی فضیلت احادیث متواترہ سے ثابت ہے، چند ملاحظہ فرمائیں:
(1) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الكَعْبَةُ.
فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ».
(2) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ -رضي الله عنه-، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ». [صحيح مسلم].
حضرت ابو قتادہ -رضی الله عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: "مجھے الله پر یقین ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا"۔
(3) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ رَجُلا ، سَأَلَهُ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟
فَقَال: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا إِلا رَجُلا سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-٬ وَأَنَا حَاضِرٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَصُمِ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّ شَهْرَ اللَّهِ -عَزَّ وَجَلَّ- فِيهِ يَوْمَ تَابَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ».
حضرت علی -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنا حکم دیتے ہیں؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس سوال کو نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- سے ایک شخص کو پوچھتے ہوئے سنا، اور میں آپ کے پاس موجود تھا، تو اس شخص نے کہا: یا رسول الله، آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟
آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے جواب دیا: اگر تم ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم کا روزہ رکھو؛ بے شک وہ ماہ خدا ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی، اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس روز قبول فرمائے گا"۔
(4) عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الأَنْصَارِ: «مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا، فَليَصُمْ».
قَالَتْ: "فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ العِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الإِفْطَارِ".
ربیع بنت معوذ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشورہ کی صبح انصار کی بستیوں میں اطلاع بھجوائی کہ جس نے کھا پیا لیا ہے اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دن نہ کھائے پیے، اور جو روزہ دار ہیں تو انھیں چاہیے کہ روزہ دار ہی رہیں"۔
ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: "اس کے بعد ہمارا یہ معمول تھا کہ ہم اس روز کا روزہ رکھتے تھے، اور ہم اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے، اور ان کے لیے اون سے کھلونا بنا دیتے، جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا اسے کھانا کھلا دیتے، حتی کہ وہ افطار میں بھی ساتھ ہوتا تھا۔
(5) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ «إِنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ أَوْ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ فَلاَ يَأْكُلْ».
(6) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "صَامَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ". [صحیح بخاری]
حضرت ابن عمر -رضی الله عنھما- سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: "رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشوراء کا روزہ رکھا، اور اس روزہ کا حکم فرمایا، جب رمضان فرض کیا گیا اسے ترک کر دیا گیا"۔
فوائد صوم عاشوراء:
(1) اس روزہ کی برکت سے سال بھر کے گناہ صغیرہ مٹا دیئے جاتے ہیں٬ حدیث شریف میں ہے:
"وسُئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: «يُكفِّر السنة الماضية».
"اور یوم عاشوراء کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: وہ سال گزشتہ کے گناہ کا کفارہ ہے"۔
امام مسلم -رحمہ الله- کی روایت میں ہے:
"وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ".
(2) امام أحمد اپنی "مسند" میں روایت کرتے ہیں:
"وهو اليوم الذي استوت فيه السفينة على الجودي، فصامه نوح شكرا".
"اسی روز کشتی جودی پر ٹھری، تو اس روز حضرت نوح -علیہ السلام- نے شکرانہ کا روزہ رکھا"۔
اس بات کا ذکر صرف امام احمد کی روایت میں ہی ہے، الحافظ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں: "وكأن ذكر موسى دون غيره هنا لمشاركته لنوح في النجاة، وغرق أعدائهما".
(3) بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے، اس روز حضرت موسیٰ -علیہ السلام- اپنی قوم کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئے، اور شکرانے میں اس روز روزہ رکھا، حدیث شریف میں ہے:
"هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى".
(4) حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتی ہیں:
"كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوما تُستَر فيه الكعبة. [صحیح بخاری]
لوگوں رمضان کے فرض ہونے سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور وہ ایسا دن تھا کہ اس روز کعبہ پر خلاف چڑھایا جاتا"۔
(5) ازرقی کا کہنا ہے کہ:
"أن معاوية كساها الديباج والقباطي والحبرات.
فكانت تكسى الديباج يوم عاشوراء، والقباطي في آخر رمضان.
(6) اسی روز امام حسین -رضی الله تعالیٰ عنه- کربلا میں شہید ہوئے۔
خاتمہ:
الله تعالی کا شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں بھت سے یادگاری ایام عطا فرمائے، یہ ایام اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سے خوب خوب استفادہ کیا جائے، انھیں ذکر وفکر میں گزارا جائے، اور حاصل شدہ نصح وعبر سے سبھی کو مطلع کیا جائے، تاکہ مستقبل کی سھی طور پر پیش بندی کی جا سکے، اور امت مسلمہ فلاح دارین حاصل کرسکے۔
علاوہ ازیں ان دنوں میں ثابت شدہ امور کو ہی بجا لانا چاہیے، بدعات ومنکرات سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، الله تعالی فرماتا ہے:
{أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ}.
💐🌸🌷🌹
ممبیء، 15/اگست/2019
----------------------
الاثنين، 12 أغسطس 2019
ہر طرف ہے رب تیری رحمتیں
برکتیں، شفقتیں، حکمتیں
وسعتیں، فرحتیں، نکہتیں
ہر طرف ہے رب تیری رحمتیں
آیتیں، مدحتیں، عزتیں
صولتیں، نعمتیں، رافتیں
ہیں تیری اور بھی رفعتیں
سورتیں، آیتیں، سنتیں
ہجرتیں، دعوتیں، امتیں
مصطفی کی ہیں سب سیرتیں
صورتیں، مورتیں، پنڈتیں
حرکتیں، بدعتیں، ظلمتیں
مجتبی کی ہے ان پر ہیبتیں
خلوتیں، جلوتیں، حاجتیں
صنعتیں، حرفتیں، ہمتیں
ہو شاد کام ہماری منتیں
عسرتیں، قلتیں، فرقتیں
نخوتیں، حدتیں، رنجشیں
ہوجائے ہوا ہر اک غفلتیں
رشوتیں، لعنتیں، آفتیں
علتین، ذلتیں، عجلتیں
دور ہوں سب ہماری دقتیں
عفتیں، ، طلعتیں، عادتیں
الفتیں، خدمتیں، عظمتیں
ہم میں ہو اور بھی خصلتیں
حسرتیں، عشرتیں، چاہتیں
شوکتیں، ندرتیں، وسعتیں
ہم رکاب ہو ہمارے شھرتیں
نتیجہ فکر
ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
11/اگست/2019
نتیجہ فکر
ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
11/اگست/2019
السبت، 10 أغسطس 2019
آیت کریمہ {يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا} کے ہمراہ ایک نشست
کاتب.... ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
•°•°•°•°•°•°•
اللہ تعالی نے اس دنیا کی ابتداء اور انتہا کو مقرر کر رکھا ہے، انتہا کو "قیامت" سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ دن بڑا ہی سخت ہوگا، ہول ناکی کا یہ عالم ہوگا کہ قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے منھ پھیرے ہوں گے، قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:
{فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ}.[عبس]
اس خطرناک ماحول میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو بھت ہی شادماں ہوں گے، انہیں کسی طرح کا خوف لاحق نہ ہوگا، ان کے اعمال صالحہ ان کے ہم رکاب ہوں گے، ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے، قرآن کریم نے ان کی تصویر کشی اس طرح کی ہے:
{وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ}. [عبس: 38، 39].
"کچھ چہرے اس روز روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے شاداں"۔
ان خدا ترس لوگوں کو وفد کی صورت میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، یہ لوگ جانب جنت پیش قدمی کر رہے ہوں گے، مگر اللہ تعالی نے ان کی روانگی کو اپنی جانب آنے سے تعبیر کیا ہے، جس سے بندہ مومن کے دل ودماغ میں فرحت وانبساط کی ایک عجیب سی کیفیت دوڑ جاتی ہے، فرمان الہی ہے: {يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا}.
مگر اس آیت میں مضاف محذوف ہے، جو لفظ "جنة" ہے، اصل عبارت "إلى جنة الرحمن" یعنی "رحمن کی جنت کی طرف" ہے۔
سبحان الله، دخول جنت کا خوش نما منظر ہے، جنت کو رحمن ورحیم کی رحمت گھیرے ہوئے ہے، ادھر مومنین کو پیشگی اطلاع دی جا رہی ہے کہ ان کی روانگی کس جانب ہوگی۔
اس روز مومنین کس شان سے داخل جنت ہوں گے اسے حضرت علی -رضی الله تعالی عنہ- نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"لا والله، ما على أرجلهم يحشرون، ولا يحشر الوفد على أرجلهم، ولكن بنوق، لم ير الخلائق مثلها، عليها رحائل من ذهب، فيركبون عليها حتى يضربوا أبواب الجنة". [مسند امام احمد].
"خدا کی قسم، وہ قدموں پر چل کر نہیں آئیں گے، اور نہ ہی وفد اپنے پیروں پر چل کر آئے گا، مگر وہ اونٹی سوار ہوں گے۔
لوگوں نے اس کی طرح کی اونٹی دیکھا نہیں ہوگا، اونٹنیوں پر سنہرے کجاوے ہوں گے، وہ لوگ اس پر سوار ہوں گے، یہاں تک کہ وہ لوگ ابوابِ جنت پر پہونچیں گے"۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اے پاک پروردگار، ہم سبھی کو ان بابرکت لوگوں کی معیت عطا فرما، اور ہر طرح کے عذاب سے امان عنایت فرما، (اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ). [بخاری]
عروس البلاد ممبئی، 11 اگست، 2019
الاشتراك في:
الرسائل (Atom)