التسميات

الأربعاء، 20 يوليو 2022

الرسالة المفيدة پر تبصرہ

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين، وعلى آله وصحبه أجمعين. اما بعد، الله تعالی نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے انبیائے کرام اور رسولان عظام کو مبعوث فرمایا، آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیا، اور آپ پر قرآن وحدیث کو بذریعہ وحی نازل فرمایا، قرآن کریم کو متن اور حدیث نبوی کو اس کی تفسیر کا درجہ عطا کیا، جب علمائے اسلام نے مصادر شرع کی حد بندی کی، حدیث شریف کو قرآن کے بعد دوسرا مصدر قرار دیا، جب کہ تیسرا مصدر اجماع اور چوتھا قیاس قرار پایا، یہ درجہ بندی تتبع اور استقراء کے بعد عمل میں آئی۔ عہد رسالت میں حدیث شریف کی کتابت اور اس کی حفاظت کی جزوی کوششیں ہوتی رہیں، قرآن کریم کی طرح اس کے حفظ وکتابت کا اہتمام نہیں کیا گیا، اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ مسلمان وسائل کی کمی کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ حدیث بھی لکھ لیا کرتے تھے، جب اس بات کو آقائے کریم ﷺ نے ملاحظہ فرمایا تو آپ نے قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھنے کی تاکید فرما دی، تاکہ قرآن وحدیث میں تفریق رہے۔ جب خلافت کی باگ دوڑ حضرت عمربن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد ہوئی، آپ نے امام زہری کو جمع حدیث کے اہم کام پر متعین کیا، آپ کی کاوشوں سے پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر جمع وتدوین کا کام انجام پایا، ورنہ اس سے قبل صحابہ کرام وتابعین عظام کے پاس ان کے جمع کردہ اجزاء ہی تھے، یا وہ حکم نامے یا خطوط محفوظ تھے، جنھیں رسول کریم ﷺ نے لکھوایا تھا۔ جب تصنیف وتالیف کا دور شروع ہوا، اس وقت امام مالک کی موطا نے کافی شہرت پائی، جسے بلند پایہ علما امراء اور حکام نے سماعت کرنا اور اس کی روایت کرنا اپنے لیے باعث سعادت گردانا، وقت گزرتا رہا، یہاں تک کہ امام محمد بن اسماعیل بخاری کا زمانہ آیا، آپ نے الجامع الصحیح المختصر تالیف فرمائی، اس میں احادیث صحیحہ کا خصوصی اہتمام رکھا، اور آثار سے اجتناب کیا، آپ کی اس تالیف کو کتب احادیث میں وہ شہرت دوام حاصل ہوئی، جوکسی دوسری کتاب کو نہیں مل سکی، علما نے اس کی مختلف زبانوں میں شروحات لکھیں، حواشی چڑھائے، اس کے روات پر جرح وتعدیل کی، صرفی اور نحوی تعلیلوں اور وجوہات کو بیان کیا، بلاغی اور ادبی نقطہ نظر سے بحث ومباحثہ کیا، سماجی اور تاریخی پہلوؤں کو زیر بحث لائے، غرض کی ہر جہت سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ لکھا جاتا رہا، اسی کی ایک کڑی الرسالہ المفیدہ بھی ہے، جس کے مصنف فہد بن علی کشی ہیں، انھوں نے اس رسالے میں ایسے مفید قواعد بیان کیے ہیں، جن کے ذریعے صحیح بخاری کے ان راویوں کے اسماء کا درست تعین ہوجاتا ہے، جن کی صرف کنیت یا شہر کی نسبت ذکر کی گئی ہے، یا ایک نام کے اگر کئی راوی ہیں تو مبینہ قواعد سے ان کے مابین تفریق کا سلیقہ آجائے گا، عوامی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک خشک موضوع ہے، مگر طلبا اور علما کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے، خاص کر تحقیقی مزاج رکھنے والے علما اور اسلامیات کے باحثین کے لیے یہ ایک گراں قدر علمی کارنامہ ہے۔ اس رسالے کو عالی قدر نوجوان عالم دین مولانا ابو الابدال محمد رضوان طاہر فریدی صاحب نے بڑی ہی جانفشانی کے بعد اردو قالب میں ڈھالا ہے، ساتھ ہی ساتھ ابتداء میں بہت سے اضافات بھی کیے ہیں، رسالہ حجم کے اعتبار سے کہتر ضرور ہے، مگر بہت سی ضخیم کتابوں سے بہتر ہے۔ اس رسالے کی ترجمہ نگاری اور اضافات کے لیے مولانا موصوف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، مولی تعالیٰ موصوف کے اس قلمی کاوش کو قبول فرمائے اور مزید علمی کارناموں کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔ ابو الفواد توحید احمد طرابلسی جمدا شاہی، بستی، یوپی، بھارت 3/جولائی 2022ء بروز اتوار

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق