التسميات

الأربعاء، 15 مايو 2019

تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!

کاتب_ ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
///_///_///_///_///_///_///_///_///

الحمد لله الذي أنزل {ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم}. [الأنعام : 108].

والصلاة والسلام على القائل (لا تَسُبُّوا الأمواتَ، فَإنَّهُمْ قَدْ أفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّموا).

وعلى آله الطاهرين، وأصحابه العادلين، وأتباعه إلى يوم الدين.

أما بعد،

وجود انسانی خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے، یہ حضرت انسان ہیں، جن کو اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنایا گیا، پھر ان میں سے کچھ افراد کو چنا گیا، انھیں نعمت ایمان سے نوازا گیا، اور امت محمد ﷺ میں سے بنایا گیا۔

غرض کہ کائنات کی ساری اعلی صفات ذات مومن میں ودیعت کر دی گئی، اور بحر وبر میں یہ اعلان بھی کردیا گیا:

 {وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ}. [بقره: 221].

"اور تحقیق کہ مومن بندہ مشرک سے زیادہ بہتر ہے"۔

پھر ان مومن بندوں میں درجہ بندی کی گئی، کوئی اعلی درجہ پر فائز ہوا، کوئی متوسط درجے میں پہونچا، کسی کو ادنی درجہ دستیاب ہوا، اور یہ درجات ان کے اعمال صالحہ کے باعث انھیں ملے۔

چناں چہ جس نے حکم الہی کی اتباع کی، وہ دارین میں سر خرو ہوگیا، انھیں احکام الہیہ میں بے ہودہ گوئی سے ابتعاد کا بھی حکم ہے، جو معاشرہ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔

جس امت کو {أمة وسطا} کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، جسے امم عالم کی رہبری کی ذمہ داری سونپی گئی، آج وہی سب وشتم کے قعر میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔

منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی نے بھت ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے:

ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی، تو ہے ہر بات پر گالی 
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!

آج عالم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے چند اخص الخواص مواقف کو ہر جگہ بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی احکام {وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}. [آل عمران: 104]، اور (ليس المؤمن بالطعَّان ولا اللعَّان، ولا الفاحش ولا البَذِيء) سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم نے تو اغیار سے بھی حسن معاشرت کا درس دیا ہے، چناں چہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا، اور یہ کہا گیا کہ اس سے نرم گوئی اختیار کریں، {فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا}.

اسی طرح عام مسلمانوں کو بتوں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، تاکہ کفار اپنی جہالت کی وجہ سے خدائے پاک کو گالی نہ دیں، ارشادِ باری ہے:

{وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ}. [انعام: 108].

"اور تم لوگ انہیں گالی نہ دو، جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکارتے ہیں، تو یہ لوگ عداوتا الله کو جہالت کے باعث گالی دیں گے"-

رسول اعظم ﷺ فرماتے ہیں:

(الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ).
[صحيح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة].

"آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں"۔

دوسری حدیث میں ہے:

(سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ). 

"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے"۔

اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے شیطان رجیم کو بھی گالی دینے سے باز رکھا ہے، آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:

 (لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره).

"تم لوگ شیطان کو گالی نہ دو، تم لوگ اس کے شر سے الله کی پناہ مانگو"۔

امام مناوی -رحمه الله تعالى- اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"إن السب لا يدفع ضره، ولا يغني من عداوته شيئا؛ ولكن تعوذوا بالله من شره؛ فإنه المالك لأمره، الدافع لكيده عمن شاء من عباده". [شرح الجامع الصغير].

"بے شک گالی شیطان کے ضرر کو دور نہیں کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی عداوت سے کوئی چیز بچا سکتی ہے، مگر الله تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگو، الله تعالی اس کے معاملہ کا مالک ہے، اس کے مکر کو اپنے جس بندے سے چاہے دفع کرنے والا ہے"۔

ایک دوسری حدیث شریف میں ہے، روز جزاء ایک فرد کو لایا جائے گا، اس کے پاس بھت نیکیاں ہوں گی، مگر اس سے یہ نیکیاں لے لی جائیں گی، اور لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، یہ فرد کوئی اور نہیں بلکہ "گالی باز" ہوگا، الفاظ حدیث یہ ہیں:

(إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا. فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ.

فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ).

"میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ حاضر ہوگا، اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔

اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس کے پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔

اے مسلمانو، آخرت کا دن بھت ہی ہول ناک ہوگا، اس روز نفسی نفسی کا عالم ہوگا، ایک ایک نیکی کی بڑی اہمیت ہوگی، اپنی نیکیوں کا ضیاع خود اپنی زبان سے نہ کرو، اچھی بات کرو، جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}. [البقرة:83].

 جان لو الله رب العزت بری بات کے اظہار کو سخت  نا پسند کرتا ہے:

{لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ}. [نساء: 148].

"الله بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے کلام کو"۔

اے رسول کے دیوانو، اپنے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناؤ، ام المومنین حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- فرماتی ہیں:

"لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- فاحشًا، ولا متفحشًا، ولا صخابًا في الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح".

"رسول اکرم ﷺ بد گو، بد زبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، مگر آپ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے تھے"۔ 

بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ: 
(اللهم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق، لا يهدي لأحسنها إلا أنت، وقني سيء الأعمال، وسيء الأخلاق، لا يقي سيئها إلا أنت). [نسائی].
[1رمضان 1440/ 7/مئی 2019]

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق