_*_-*_-*_-*_-*_-*_-*_-*_
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين، وعلى آله وأصحابه وأتباعه إلى يوم الدين.
أما بعد،
ریان عربی زبان کا لفظ ہے، مذکر ہے، بطور علم مستعمل ہے، روی يروي رَيْوان سے آیا ہے، اس لفظ کا مؤنث "ریا" اور "ریانہ" آتا ہے۔
پیاس کے بعد سیراب ہونا اس کا معنی ہے، اس کا ایک معنی جسم کا گوشت سے بھرا ہونا بھی ہے۔
اس لفظ کا تلفظ راء کے زبر اور یاء کے تشدید مع زبر کے ہے، بلادِ شام، خلیج اور برصغیر میں بچوں کا یہ نام رکھا جاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جنت کے کل آٹھ دروازہ ہیں، الفاظ حدیث یہ ہیں:
(مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنّ لاَ إِلَهَ إِلاّ الله وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنّ مُحَمّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنّ عِيسَىَ عَبْدُ اللّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنّ الْجَنّةَ حَقّ، وَأَنّ النّارَ حَقّ، أَدْخَلَهُ الله مِنْ أَيّ أَبْوَابِ الْجَنّةِ الثّمَانِيَةِ شَاءَ). [متفق علیہ]
"جس نے یہ کہا: میں گواہی دیتا ہوں الله کے سوا کوئی کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور بے شک محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور بے شک عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے مریم کی طرف القا کیا، اور اس کی روح ہیں، اور بے شک جنت حق ہے، اور جہنم حق ہے، الله پاک اسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے وہ داخل ہونا چاہیے داخل کرے گا"۔
چناں چہ جنت کے سب دروازوں کے مخصوص نام ہیں، بتحقیق علامہ ابن حجر عسقلانی -رحمه الله تعالى- جنت کے آٹھ دروازے درج ذیل ہیں:
1: بَابِ الصَّلاَةِ
2:بَابُ الجِهَادِ
3:بَابُ الرَّيَّانِ
4:بَابُ الصَّدَقَةِ
5: بَابُ الْحَجّ
6:الْبَابُ الْأَيْمَنُ
7:بَابُ الذِّكْرِ او بَابَ الْعِلْمِ
8:بَابُ الْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ۔
یہ سارے دروازے رمضان میں مؤمنین کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، رسول اکرم -صلی الله علیه وسلم- فرماتے ہیں:
(إذا دخَل رمضان، فُتحِت أبواب الجَنَّة). [متفق عليه].
"جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں"۔
انہیں دروازوں میں ایک کا نام "ریان" ہے، حدیث شریف میں بھی اس کا ذکر وارد ہوا ہے، سرکار دو عالم -صلی اللہ علیہ وسلم- فرماتے ہیں:
(إِنَّ فِي الجَنَّة بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يدْخُلُ مِنْهُ الصَّائمونَ يومَ القِيامةِ، لاَ يدخلُ مِنْه أَحدٌ غَيرهُم، يقالُ: أَينَ الصَّائمُونَ؟
فَيقومونَ لاَ يدخلُ مِنهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فإِذا دَخَلوا أُغلِقَ فَلَم يدخلْ مِنْهُ أَحَدٌ). [متفق عليه].
(جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کو "ریان" کہتے ہیں، روز قیامت روزہ دار ہی اس سے داخل ہوں گے، کوئی دوسرا داخل نہ ہو گا۔
کہا جائے گا کہ: روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے، اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔
جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ بند ہو جائے گا، اور اس میں کوئی داخل نہ ہو گا)۔
ابن جوزی -رحمہ الله تعالی- "ریان" کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس دروازے کو "باب ریان" [بہت زیادہ سیراب کرنے والا] اس لیے کہا گیا ہے کہ روزے داروں کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیوں کہ پیاسے روزہ دار کا بدلہ یہی بنتا ہے کہ اسے سیراب کیا جائے، اس لیے سیرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے "ریان" کہا گیا"۔ [كشف المشكل: ص391، ج 3]۔
ملا علی قاری رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:
"یا تو وہ بنفسہ ریان ہے، کیوں کہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں، اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔
یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی، اور ترو تازگی ونظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی"۔ [مرقاة المفاتيح: ص 230، ج 4]
06/مئی، بروز پیر، 2019ء
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق