التسميات

الخميس، 16 مايو 2019

حديث رسول -صلی الله تعالی علیه وسلم- (ﻻ ﺣﺴَﺪَ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ) کی تشریح وتوضيح

کاتب......: أبو الفؤاد توحيد احمد عليمی
...***....***....***....***....***....***....***....***...

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام علی سيد المرسلين، وعلی اله، واصحابه، واتباعه إلی يوم الدين.

صحابی رسول حضرت عبد الله ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ -ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ تعالی عنهما- فرماتے ہیں:

"ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭسلم-  (ﻻ ﺣﺴَﺪَ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ؛
- ﺭﺟﻞٌ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺎﻟًﺎ ﻓﺴﻠَّﻄﻪ ﻋﻠﻰ ﻫﻠَﻜﺘﻪ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻖ.
- ﻭﺭجلٌ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﻜﻤﺔَ ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻀﻲ ﺑﻬﺎ ﻭﻳﻌﻠِّﻤﻬﺎ). [متفق عليه].

"رسول الله -صلی الله تعالی علیه وسلم- نے ارشاد ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: "ﺣﺴﺪ [ﺭﺷﮏ] ‏دو لوگوں کے ساتھ ہی درست ہے:
1⃣ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ‏سے ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍلله تعالی ﻧﮯ دولت عطا کی ﺍﻭﺭ اسے [راہ] حق میں خرچ کرنے کی ﺗﻮﻓﯿﻖ دی-

2⃣اور ﺍﺱ ﺷﺨﺺ سے ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍلله تعالی ﻧﮯ ﻋﻠﻢ ﻭﺣﮑﻤﺖ سے نوازا، جس کے ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺳﮯ وہ ﻓﯿﺼﻠﮯ ‏کرتا ہو اور ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ دیتا ہو"-

اس حديث سے مستفاد بعض فوائد:

★ اپنے مال وعلم سے لوگوں کو فیضیاب کرنا احسان کے قبیل سے ہے، جس کا کوئی بدیل نہیں-

★ اس حديث میں "حسد" کا لفظ وارد ہوا ہے، یہ لفظ دو معنی پہ دلالت کرتا ہے، ایک یہ کہ کسی نعمت کی خواہش کرنا اور دوسرے کے پاس سے اس نعمت کے زوال کا متمنی ہونا-

دوسرا معنی "غبطه" کا ہے، یعنی کسی نعمت کی ارزو ہو، مگر دوسرے کے پاس سے اس کا زوال ہوجائے اس کی خواہش نہ ہو، جسے رشک کہا جاتا ہے، اس امر کی صراحت حضرت ابو ہریرہ -رضی الله تعالی عنہ- کی روایت سے ہوتی ہے، جس میں ہے:

"ﻻ ﺗﺤﺎﺳﺪ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ؛
- ﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﻬﻮ ﻳﺘﻠﻮﻩ ﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻠﻴﻞ ﻭﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ، ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻮﻝ: ﻟﻮ ﺃﻭﺗﻴﺖ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﺃﻭﺗﻲ ﻫﺬﺍ ﻟﻔﻌﻠﺖ ﻛﻤﺎ ﻳﻔﻌﻞ. 

- ﻭﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺎﻻ، ﻓﻬﻮ ﻳﻨﻔﻘﻪ ﻓﻲ ﺣﻘﻪ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻟﻮ ﺃﻭﺗﻴﺖ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﺃﻭﺗﻲ، ﻋﻤﻠﺖ ﻓﻴﻪ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ یعمل".

★ لغت کی مشہور کتاب "الصحاح" میں "غبطہ" کے بارے میں ہے:

"ﺍﻟﻐﺒﻂ ﺿﺮﺏ ﻣﻦ ﺍﻟﺤﺴﺪ، ﻭﻫﻮ ﺃﺧﻒ ﻣﻨﻪ".
"رشک حسد کی ایک قسم ہے، یہ حسد سے اخف ہے"۔ 

علامہ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ عسقلانی -رحمه الله تعالی- "ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﻱ"میں فرماتے ہیں:

"ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﺍﻟﻤﺬﻛﻮﺭ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻬﻮ ﺍﻟﻐﺒﻄﺔ، ﻭﺃﻃﻠﻖ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻣﺠﺎﺯﺍ، ﻭﻫﻲ ﺃﻥ ﻳﺘﻤﻨﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﻟﻐﻴﺮﻩ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﻝ ﻋﻨﻪ، ﻭﺍﻟﺤﺮﺹ ﻋﻠﻰ ﻫﺬﺍ یسمی منافسة".

"حديث میں جو حسد مذكور ہوا، اس سے مراد رشک ہے، مجازا اسے حسد کہا گیا ہے، رشک ایسی ارزو کرنا کہ اس کے پاس بھی دوسرے کی طرح ہو، اور فرد اخر سے وہ چیز زائل نہ ہو اور اس پر حرص رکھنے کو منافست کہتے ہیں"۔

★ علامہ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ رحمه الله تعالی اس حديث کی شرح میں فرماتے ہیں:

"ﻓﻜﺄﻧﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ- ﻗﺎﻝ ﻻ ﺣﺴﺪ، ﻭﻟﻜﻦ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﻗﻴﺎﻡ ﺍﻟﻠﻴﻞ ﻭﺍﻟﻨﻬﺎﺭ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﻓﻲ ﻧﻔﻘﺔ ﺍﻟﻤﺎﻝ ﻓﻲ ﺣﻘﻪ، ﻭﺗﻌﻠﻴﻢ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺃﻫﻠﻪ".

★ مال ودولت کو  فی سبیل الله خرچ کرے، اپنی نفسیاتی خواہش، فساد اور اسراف کے مد میں نہ اڑائے، الله تعالی کے ارشاد {ﻣَﻦْ ﻋَﻤِﻞَ ﺻَﺎﻟِﺤﺎً ﻣِﻦْ ﺫَﻛَﺮٍ ﺃَﻭْ ﺃُﻧْﺜَﻰ ﻭَﻫُﻮَ ﻣُﺆْﻣِﻦٌ ﻓَﻠَﻨُﺤْﻴِﻴَﻨَّﻪُ ﺣَﻴَﺎﺓً ﻃَﻴِّﺒَﺔ} کا مصداق ہو رہے۔

★ یہ حديث اعمال خير میں منافست کی اباحت پر دلالت کرتی ہے، جس کی اجازت قران کریم میں بھی ائی ہے، ارشاد ربانی ہے:
{ﻓﺎﺳﺘﺒﻘﻮﺍ ﺍﻟﺨﯿﺮﺍﺕ}. [ﺍﻟﻤﺎﺋﺪﮦ] .
"تو ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ مسابقت کرو".

★ مال وزر کی خواہش تکمیل شہوات کے لیے ہرگز نہ کرے۔

★ حديث میں ایک لفظ حكمت بھی مذكور ہوا ہے، حكمت قول وفعل کے اتفاق کو کہتے ہیں۔

سابقہ معنی کے علاوہ "ﺣﻜﻤﺔ" کے کئی معانی ہیں، جس میں سے چند بطور ہدیہ پیش ہیں:

حكمت بمعنی قران:
امام بخاری -رحمه الله تعالی- نے سابقہ حديث کو صحابہ رسول حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- سے بھی روایت کیا ہے، اس روایت میں ہے:

"ﻻ ﺣﺴﺪ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ... ﻭﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻮﻡ ﺑﻪ ﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻠﻴﻞ، ﻭﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ".

حكمت بمعنی سنت:
ارشاد ربانی ہے: {ﻭَﺃَﻧْﺰَﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻚَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﻭَﺍﻟْﺤِﻜْﻤَﺔَ}. [ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ 113].

حكمت بمعنی دینی معرفت:
حضرت ﺍﺑﻦ ﻭﻫﺐ کہتے ہیں: 
ﻗﻠﺖ ﻟﻤﺎﻟﻚ: ﻣﺎ ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ؟ 
ﻗﺎﻝ: ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﺪﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻔﻘﻪ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻳﻦ، ﻭﺍﻻﺗﺒﺎﻉ ﻟﻪ. 

"میں نے امام مالک سے پوچھا: حكمت کیا ہے؟
فرمایا: دین کی معرفت، فقہ کی سمجھ اور اس کی اتباع"-

حكمت بمعنی دین:
ﺍﺑﻦ ﺯﻳﺪ کہتے ہیں:
"ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﻌﺮﻓﻮﻧﻪ ﺇﻻ ﺑﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ-، ﻳﻌﻠﻤﻬﻢ ﺇﻳﺎﻫﺎ".

★ امام نووی -رحمه الله تعالی- فرماتے ہیں:
"ﺍﻟﺤِﻜْﻤَﺔ: ﻋﺒﺎﺭﺓ ﻋﻦ ﺍﻟﻌﻠﻢ، ﺍﻟﻤﺘَّﺼﻒ ﺑﺎﻷﺣﻜﺎﻡ، ﺍﻟﻤﺸﺘﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ، ﺍﻟﻤﺼﺤﻮﺏ ﺑﻨﻔﺎﺫ ﺍﻟﺒﺼﻴﺮﺓ، ﻭﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﻨَّﻔﺲ، ﻭﺗﺤﻘﻴﻖ ﺍﻟﺤﻖِّ، ﻭﺍﻟﻌﻤﻞ ﺑﻪ، ﻭﺍﻟﺼﺪِّ ﻋﻦ ﺍﺗِّﺒﺎﻉ ﺍﻟﻬﻮﻯ ﻭﺍﻟﺒﺎﻃﻞ، ﻭﺍﻟﺤَﻜِﻴﻢ ﻣﻦ ﻟﻪ ﺫﻟﻚ".

★ سابقہ حديث میں حكمت سے کیا مقصود ہے؟ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، عام طور پہ دین اور اس کی فہم مراد لیا گیا ہے، جس کا حصول علم کے واسطہ سے ممکن ہے۔

حرف اخر: 
روز قیامت مال ودولت اور دوسرے اعمال کے ساتھ علم کی بھی پرشش ہوگی، حديث شريف میں ہے: "ﻭﻋﻦ علمه ﻓﯿﻢ ﻓﻌﻞ".

لہذا اہل ایمان کو غير نفع بخش علم سے اجتناب کرنا چاہیے، الله تعالی کی بارگاہ میں ہمیشہ  یہ دعا کرتے رہنا چاہیے:

 "اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع".
"ﺍﮮ ﺍلله، ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻧﻔﻊ ﺑﺨﺶ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ"-
---------------------

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق