السبت، 30 يوليو 2022
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یو پی کے سابق استاذ حضرت علامہ مولانا محمد تفسیر القادری قیامی صاحب حفظہ الله ورعاہ کی حیات وخدمات پر شائع ہونے والی یہ پہلی کتاب ہے۔
اس کی اشاعت مبلغ اسلام ریسرچ سینٹر ممبئ سے ہو رہی ہے، جس کے موسس اعلی حضرت علامہ مولانا محمد شفیق الرحمن مصباحی عزیزی صاحب (مفتی اعظم ہالینڈ، وسربراہ اعلی دار العلوم علیمیہ) ہیں۔
کتاب کی پروف ریڈنگ اور طباعت کی ساری ذمہ داریاں حضرت علامہ مولانا مظہر حسین علیمی صاحب (ایڈیٹر ماہ نامہ سنی دعوت اسلامی، ممبئی) کے سر جاتی ہے، جس کے لیے میں آپ دونوں حضرات کا تہہ دل سے ممنون ومشکور ہوں۔
ان شاء الله تعالیٰ اس کتاب کی رو نمائی مصطفی بازار ممبئی میں منعقد عرس علیمی میں ہونا طے پایا ہے۔
الأربعاء، 20 يوليو 2022
حضرت مولانا مفتی محمد اختر حسین صاحب علیمی کو صدمہ
استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اختر حسین علیمی صاحب کی والدہ ماجدہ حسب دستور قدرت آج بعد نماز ظہر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں، إنا لله وإنا إليه راجعون.
یہ کیا دستِ ازل کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے پھول چننا اور ویرانے میں رکھ دینا
قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، مولی کریم مرحومہ کی اس منزل اور دیگر منازل کو اپنے حبیب ﷺ کے صدقے آسان تر فرمائے اور روز حساب لواء الحمد کے تلے اٹھائے۔
نیز مرحومہ کے پسماندگان خصوصا استاذ گرامی کو صبر جمیل اور اس پر اجر جزیل عطا فرمائے۔
اللَّهمَّ اغفرْ لَها وارحمها، وعافِها واعف عنها، وأكْرِم نُزَلَها، ووسِّع مُدَخلَها، واغسلْها بالماءِ والثَّلجِ والبَردِ، ونقِّهها منَ الخطايا كما نقَّيتَ الثَّوبَ الأبيضَ منَ الدَّنسِ، وأبدِلها دارًا خَيرًا مِن دارِها، وأهلًا خَيرًا مِن أهلِهِا، وأدخِلها الجنَّة، وأَعِذها مِن عذابِ القبرِ، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
ابو الفواد توحید احمد طرابلسی
جمدا شاہی، بستی، یوپی
الرسالة المفيدة پر تبصرہ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين، وعلى آله وصحبه أجمعين.
اما بعد، الله تعالی نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے انبیائے کرام اور رسولان
عظام کو مبعوث فرمایا، آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیا،
اور آپ پر قرآن وحدیث کو بذریعہ وحی نازل فرمایا، قرآن کریم کو متن اور حدیث نبوی
کو اس کی تفسیر کا درجہ عطا کیا، جب علمائے اسلام نے مصادر شرع کی حد بندی کی، حدیث
شریف کو قرآن کے بعد دوسرا مصدر قرار دیا، جب کہ تیسرا مصدر اجماع اور چوتھا قیاس
قرار پایا، یہ درجہ بندی تتبع اور استقراء کے بعد عمل میں آئی۔ عہد رسالت میں حدیث
شریف کی کتابت اور اس کی حفاظت کی جزوی کوششیں ہوتی رہیں، قرآن کریم کی طرح اس کے
حفظ وکتابت کا اہتمام نہیں کیا گیا، اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ مسلمان وسائل کی
کمی کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ حدیث بھی لکھ لیا کرتے تھے، جب اس بات کو آقائے
کریم ﷺ نے ملاحظہ فرمایا تو آپ نے قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھنے کی تاکید فرما دی،
تاکہ قرآن وحدیث میں تفریق رہے۔ جب خلافت کی باگ دوڑ حضرت عمربن عبد العزیز رحمۃ
اللہ علیہ کے سپرد ہوئی، آپ نے امام زہری کو جمع حدیث کے اہم کام پر متعین کیا، آپ
کی کاوشوں سے پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر جمع وتدوین کا کام انجام پایا، ورنہ اس سے
قبل صحابہ کرام وتابعین عظام کے پاس ان کے جمع کردہ اجزاء ہی تھے، یا وہ حکم نامے
یا خطوط محفوظ تھے، جنھیں رسول کریم ﷺ نے لکھوایا تھا۔ جب تصنیف وتالیف کا دور شروع
ہوا، اس وقت امام مالک کی موطا نے کافی شہرت پائی، جسے بلند پایہ علما امراء اور
حکام نے سماعت کرنا اور اس کی روایت کرنا اپنے لیے باعث سعادت گردانا، وقت گزرتا
رہا، یہاں تک کہ امام محمد بن اسماعیل بخاری کا زمانہ آیا، آپ نے الجامع الصحیح
المختصر تالیف فرمائی، اس میں احادیث صحیحہ کا خصوصی اہتمام رکھا، اور آثار سے
اجتناب کیا، آپ کی اس تالیف کو کتب احادیث میں وہ شہرت دوام حاصل ہوئی، جوکسی دوسری
کتاب کو نہیں مل سکی، علما نے اس کی مختلف زبانوں میں شروحات لکھیں، حواشی چڑھائے،
اس کے روات پر جرح وتعدیل کی، صرفی اور نحوی تعلیلوں اور وجوہات کو بیان کیا، بلاغی
اور ادبی نقطہ نظر سے بحث ومباحثہ کیا، سماجی اور تاریخی پہلوؤں کو زیر بحث لائے،
غرض کی ہر جہت سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ لکھا جاتا رہا، اسی کی ایک کڑی الرسالہ المفیدہ
بھی ہے، جس کے مصنف فہد بن علی کشی ہیں، انھوں نے اس رسالے میں ایسے مفید قواعد
بیان کیے ہیں، جن کے ذریعے صحیح بخاری کے ان راویوں کے اسماء کا درست تعین ہوجاتا
ہے، جن کی صرف کنیت یا شہر کی نسبت ذکر کی گئی ہے، یا ایک نام کے اگر کئی راوی ہیں
تو مبینہ قواعد سے ان کے مابین تفریق کا سلیقہ آجائے گا، عوامی طور پر دیکھا جائے
تو یہ ایک خشک موضوع ہے، مگر طلبا اور علما کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے، خاص کر
تحقیقی مزاج رکھنے والے علما اور اسلامیات کے باحثین کے لیے یہ ایک گراں قدر علمی
کارنامہ ہے۔ اس رسالے کو عالی قدر نوجوان عالم دین مولانا ابو الابدال محمد رضوان
طاہر فریدی صاحب نے بڑی ہی جانفشانی کے بعد اردو قالب میں ڈھالا ہے، ساتھ ہی ساتھ
ابتداء میں بہت سے اضافات بھی کیے ہیں، رسالہ حجم کے اعتبار سے کہتر ضرور ہے، مگر
بہت سی ضخیم کتابوں سے بہتر ہے۔ اس رسالے کی ترجمہ نگاری اور اضافات کے لیے مولانا
موصوف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، مولی تعالیٰ موصوف کے اس قلمی کاوش کو قبول
فرمائے اور مزید علمی کارناموں کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔ ابو الفواد توحید
احمد طرابلسی جمدا شاہی، بستی، یوپی، بھارت 3/جولائی 2022ء بروز اتوار
الاشتراك في:
الرسائل (Atom)