كاتب.... ابو الفؤاد توحيد احمد طرابلسی
---------------------
الله کے رسول -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کے چوتھے خلیفہ حضرت علی -رضی الله تعالی عنہ- ہیں، آپ کے فضائل میں کئی حدیثیں گڑھی گئی ہیں، یہ مختلف ادوار میں عوامی جذبات کو فرش سے عرش پہ پہونچانے کا کام کرتی رہی ہیں۔
بعض مقررین ایسی ہی حدیثوں کی تاک میں رہتے ہیں، ہاتھ لگتے ہی بڑی چاہ سے بیان کرتے ہیں، اور بڑے بڑے اسٹیج لمحوں میں الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں، ایسی ہی چند حدیثیں علمی تحقيق کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
تمھید :
الله تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے انسان کی تخليق مٹی سے کی ہے: {ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺎﺱُ ﺇِﻥْ ﻛُﻨْﺘُﻢْ ﻓِﻲ ﺭَﻳْﺐٍ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﺒَﻌْﺚِ ﻓَﺈِﻧَّﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.
دوسری جگہ انسانی تخليق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: {ﻭَﻣِﻦْ ﺁﻳَﺎﺗِﻪِ ﺃَﻥْ ﺧَﻠَﻘَﻜُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.
چوں کہ بعد وصال انسان کو اسی مٹی میں لوٹ جانا ہے، اور ہر شخص وہاں دفن کیا جائے گا، جہاں کی خاک سے اس کی خمیر تیار کی گئی تھی، حضرت عبد الله -رضی الله تعالی عنہ- فرماتے ہیں:
"ایک حبشی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا، اس کی خبر سرکار دو عالم -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کو دی گئی، آپ نے فرمایا:
"دفن في الطينة التي خلق منها".[موضح اوهام الجمع والتفريق لابي بكر الخطيب البغدادي:217/2].
"اس مٹی میں دفن کیا گیا جہاں کی خاک سے اس کی پیدائش ہوئی"۔
روز جزاء ہر انسان کو دوبارہ اسی خاک سے اٹھ کہڑے ہونا ہے، {ﻣِﻨْﻬَﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻭَﻓِﻴﻬَﺎ ﻧُﻌِﻴﺪُﻛُﻢْ ﻭَﻣِﻨْﻬَﺎ ﻧُﺨْﺮِﺟُﻜُﻢْ ﺗَﺎﺭَﺓً ﺃُﺧْﺮَﻯ}.
اس تمھید کے بعد حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کی پیدائش کی طرف نظر کرتے ہیں، آپ سے متعلق اثنا عشریہ شیعوں کا عجیب وغريب عقیدہ ہے، جس کے مطابق رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش ایک ہی مٹی سے ہوئی ہے، تخليق سے جو مٹی بچی اس سے ان کے ائمہ کی پیدائش ہوئی، لہذا وہ دوسروں پہ عز وشرف میں فوقیت رکہتے ہیں، اس عقیدہ کو "عقيدة الطينة" کے نام سے جانا جاتا ہے-
اس عقیدہ کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت علی -رضی اللہ تعالی عنہ- روضہ رسول -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- میں محو استراحت نہیں ہیں، اسی "عقیدة الطينة" کی ایک حديث پیش ہے-
ﺣﺪﻳﺚ: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ )):
اس حديث كو ابن عساکر نے بسند مرفوع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ابو الفرج عبد الرحمن بن علی جوزی نے اس حديث کو اپنی کتاب "الموضوعات "میں ذكر کیا ہے جس کی سند ومتن اس طرح ہے:
انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:
ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ".
"رسول الله صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے، ہارون بن عمران، یحيی بن زکریا اور علی کو ایک مٹی سے پیدا کیا گیا-
اس حديث کی سند پہ ایک نظر:
سابقہ حديث کی سند میں ایک نام ابو عمران موسی بن ابراہیم بن بحر مروزی کا ہے، جن کی یحيی بن معین نے تکذیب کی ہے اور امام دار قطنی وغيره نے متروک کہا ہے-
امام ذهبی رحمه الله تعالی نے مبینہ حديث کے علاوہ دو مزید حديثوں کو بیان کیا ہے جسے موسی بن ابراہیم نے گڑھا ہے-
اب موسی بن ابراہیم مروزی کے بارے میں چند ائمہ فن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
شیخ محمد بن ربیع جیزی:
"رايته وكان صاحب الفقه ثم جاء الی الجامع فتفقه مع قوم هناد ثم جاء بكتاب فقه فقرا في الجامع فجاءه اصحاب الحديث فقالوا له امل علينا فاملی عليهم عن ابن لهيعة وغيره شيئا لم يسمعه قط ولم يسمع هو قط حدیثا لا ادري ايش قصة ذاك الكتاب اشتراه او استعاره او وجده".
امام عقيلی:
منكر الحديث لا يتابع علی حديثه.
شیخ ابو نعیم:
موسی ضعيف.
امام ابن عدی:
موسی بن ابراهيم شيخ مجهول حدث بالمناكير عن الثقات وغيرهم.
امام ابن حبان:
كان مغفلا يلقن فيتلقن فالستحق الترك.
ایک غلط فہمی کی نشاہدہی:
امام ذہبی رحمه الله تعالی نے اس حديث کو شیخ ابن جوزی کی کتاب سے اپنی کتاب "الموضوعات" میں نقل کیا ہے اس حديث کی درجہ بندی کرتے ہوئے ابن جوزی لکھتے ہیں:
"هذا حديث موضوع علی رسول الله صلی الله عليه وسلم والمتهم به المروزي".
جب ہم سند انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جدہ پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس میں محمد بن خلف مروزی کا نام پاتے ہیں۔
درحقيقت یہاں مروزی سے مراد موسی بن ابراہیم مروزی کی ذات ہے، مگر امام ذهبی رحمه الله تعالی کے پاس الموضوعات کا جو نسخہ تھا، اس میں موسی بن ابراہیم مروزی کا نام ساقط تھا، اس لیے امام ذہبی رحمه الله تعالی کو مغالطہ ہوا، اور آپ نے مروزی سے محمد بن خلف مروزی کی ذات کو سمجھا -
حديث: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ )):
اس حديث کو جعفر بن احمد بن علی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، اس حديث کے الفاظ یہ ہیں:
"ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ، ﻭﻛﻨﺎ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻦ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﺨﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﺑﺄﻟﻔﻲ ﻋﺎﻡ، ﺛﻢ ﺧﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﻓﺎﻧﻘﻠﺒﻨﺎ ﻓﻲ ﺃﺻﻼﺏ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻨﺎ ﻓﻲ ﺻﻠﺐ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻄﻠﺐ، ﺛﻢ ﺷﻖ ﺍﺳﻤﻴﻨﺎ ﻣﻦ ﺍﺳﻤﻪ؛ ﻓﺎﻟﻠﻪ ﺍﻟﻤﺤﻤﻮﺩ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻷﻋﻠﻰ ﻭﻋﻠﻲ ﻋﻠﻲ".
"مجھے اور علی کو ایک نور سے پیدا کیا گیا اللہ تعالی ادم علیہ السلام کو پیدا کرے، اس سے دو ہزار سال پہلے ہم عرش کی داہنی جانب تھے پہر اللہ تعالی نے ادم کو تخلیق کیا، پہر ہم لوگوں کی پیٹھ میں آگیے، پہر ہم عبد المطلب کے صلب میں آئے، پہر اللہ تعالی نے ہمارے ناموں کو اپنے اسم گرامی سے بنایا اللہ محمود ہے، اور میں محمد ہوں اللہ اعلی ہے، اور علی علی ہے"-
اس حديث کے راویوں میں ایک نام جعفر بن احمد کا بھی ہے، جس کے بارے میں علماے جرح وتعديل کا کہنا ہے کہ یہ شخص حديث گڑھتا تھا، پہر اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف کر دیتا، چند ماہرین فن کی اراء ذيل میں مندرج ہیں، جس سے اس شخص کی كذب بیانی سمجھنے میں آسانی ہوگی:
ابن عدی (280-364ھ)
-ﻛﺘﺒﺖ ﻋﻨﻪ بمصر في الدخلة الاولی سنة تسع وتسعين مئتین وكتبت في الدخلة الثانية في سنة اربع وثلاثين مئة، ﻭﺃظن فيها ﻣﺎﺕ وحدَّﺛَﻨَﺎ وهو ﻋَﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ كاتب الليث ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﻭَﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺍﻟﺘﻨﻴﺴﻲ.... ﺑﺄﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻛﻨﺎ ﻧﺘﻬﻤﻪ ﺑﻮﺿﻌﻬﺎ ،ﺑﻞ ﻧﺘﻴﻘﻦ ﺫﻟﻚ ،ﻭﻛﺎﻥ مع ذلك ﺭﺍﻓﻀﻴﺎ.
"میں نے اس سے سن 299 میں جب پہلی بار مصر آیا حديث لکہی اور جب دوسری بار سن 334 میں مصر انا ہوا اس وقت بھی حديث لکہی شاید اسی سال اس کا انتقال بھی ہوا اس نے ہم سے ليث کے کاتب ابو صالح سعید بن عفیر اور عبد اللہ بن یوسف تینسی سے حديث بیان کی.... جعلی حدیثیں ہم اس پر جعل ساز ہونے کی تہمت رکہتے تھے بلکہ ہمیں اس کے جعل ساز ہونے کا یقین تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ رافضی بھی تھا"-
-وكان يضع الحديث علی اهل البيت.
"وہ اہل بیت کے بارے میں حدیثیں گڑھتا تھا"-
-وﻋﺎﻣﺔ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻭﻛﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺍﻟﺤﻴﺎﺀ ﻓﻲ ﺩﻋﺎﻭﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ لعله ﻟﻢ ﻳﻠﺤﻘﻬﻢ ﻭﻭﺿﻊ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ وانه كان يحدثنا ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺑﻜﻴﺮ باﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﺴﺘﻘﻴﻤﺔ بنسخة الليث بمثل هذه الاحاديث التي ذكرتها عنه وغير ذلك.
ابو سعيد بن يونس بن عبد الاعلی:
"كان رافضيا كذابا يضع الحديث في سب اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم".
"بھت بڑا جھوٹا رافضی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو گالی دینے کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-
دار قطنی (306-385ھ)
"ﻛﺎﻥ ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﺑﺎﻷﺑﺎﻃﻴﻞ".
"حديث گرھتا تھا اور ابن عفیر کی جانب نسبت کر کے باطل باتیں بیان کرتا تھا"-
عبد الغنی ازدی(332-409ھ)
"ﻭﻫﺬﺍ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻣﺸﻬﻮﺭ ﺑﺒﻠﺪﻧﺎ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﺗﺮﻙ ﺣﻤﺰﺓ ﺍﻟﻜﻨﺎﻧﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺑﻴﺎﻥ ﻳﻌﺮﻑ ﺑﺎﺑﻦ ﺍﻟﻤﺎﺳﺢ".
"یہ شخص ہمارے ملک میں اپنے جھوٹ کے سبب مشہور ہے، حمزہ کنانی نے اس کی حديث کو ترک کر دیا تھا، ان سب باتوں کے باجود جعفر بن احمد بن علی بن بیان "ابن ماسح" کے نام سے جانا جاتا ہے"-
ابو سعید نقاش (414ھ):
"ﺣﺪَّﺙ ﺑﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ".
علامه ذہبی (673-748ھ):
"ﻭﻣﻦ ﺃﻛﺎﺫﻳﺒﻪ : ﺑﺴﻨﺪﻩ ﺇﻟﻰ ﻋﻠﻲ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﻳﺮﻓﻌﺎﻧﻪ : ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ ".
"اس کے جھوٹ میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے بسند مرفوع حضرت علی اور جابر رضی الله تعالی عنہما سے یہ بیان کیا ہے:
ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ .
بے شک اللہ تعالی نے ﺁﺩﻡ علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اس لیے ان کی اولاد پر مٹی کہانا حرام کردیا ہے"-
حديث:ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞ:
اس حديث کو امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب "فضائل الصحابة " 2/662 میں بسند مرفوع حضرت سلمان رضی الله تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، حديث کے الفاظ بسند یہ ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻗﺜﻨﺎ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ:
"ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞَّ ، ﻗَﺒْﻞَ ﺃَﻥْ ﻳَﺨْﻠُﻖَ ﺁﺩَﻡَ ﺑِﺄَﺭْﺑَﻌَﺔَ ﻋَﺸَﺮَ ﺃَﻟْﻒَ ﻋَﺎﻡٍ ، ﻓَﻠَﻤَّﺎ ﺧَﻠَﻖَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺁﺩَﻡَ ﻗَﺴَﻢَ ﺫَﻟِﻚَ ﺍﻟﻨُّﻮﺭَ ﺟُﺰْﺀَﻳْﻦِ، ﻓَﺠُﺰْﺀٌ ﺃَﻧَﺎ، ﻭَﺟُﺰْﺀٌ ﻋَﻠِﻲٌّ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺍﻟﺴَّﻼﻡ ُ".
"حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں اور علی اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت ادم علیہ السلام کی پیدائش سے چودہ ہزار سال پہلے بشکل نور تھے، جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس نور کے دو حصے کیے ایک جزء میں ہوں اور ایک جزء علی ہیں"-
اس حديث کو امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے علاوہ ابن ﻋﺴﺎﻛﺮ ,علی ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ طیب مغازلی, اﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯمی وغيره معروف علماء نے بھی اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے-
اس حديث کی سند پہ ایک نظر:
مبینہ علماء نے اسے الحسن نامی محدث سے روایت کیا ہے الحسن کون ہیں ؟ان کی تعیین کے لیے اس حدیث کی کچھ اسناد ملاحظہ فرمائیں:
-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﺑﻦ ﺍﻟﺒﻨﺎ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺠﻮﻫﺮﻱ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺃﻧﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ... ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ لابن عساكر :42/67 .
-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺳﻬﻞ ﺍﻟﻨﺤﻮﻱ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺍﻟﺤﻠﺒﻲ ﺍﻻﺧﺒﺎﺭﻱ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺸﻤﺸﺎﻃﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ...ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لعلي بن محمد بن الطيب المغازلي: ﺹ 87.
-ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺷﻬﺮﺩﺍﺭ ﻫﺬﺍ ﺍﺟﺎﺯﺓ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪﻭﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻬﻤﺪﺍﻧﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﻰ ﻣﺤﻤﺪﺍ " ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻳﻘﻮﻝ : ﻛﻨﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻧﻮﺭﺍ " ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻣﻄﺒﻘﺎ... ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لاﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯﻡ ﺹ 145.
ان اسانید سے یہ تصریح ہوتی ہے کہ الحسن سے مقصود ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ بصری عدوی کی ذات ہے-
علاوہ ازیں امام احمد رحمہ الله تعالی نے جہاں اس حديث کو ذكر کیا ہے اس سے پہلے والی حديث ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ سے ہی روایت کی ہے اسی لیے اپ نے اس سند میں الحسن کہنے پہ ہی اکتفا کیا ہے,سابقہ حديث مع سند ومتن اس طرح ہے:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻗﺜﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻇﻬﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﺴﺪﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﻟﻤﺎ ﻋﻤﻼ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺍﻟﻮﻓﺎﺓ ﻗﺎﻝ: ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﻲ ﺃﺗﻘﺮﺏ ﺇﻟﻴﻚ ﺑﻮﻻﻳﺔ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ.
ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ بصری عدوی اور ائمہ جرح وتعدیل:
ابو سعید حسن عدوی کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ﺍﺑﻦ ﻋﺪی:
-"ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺴﺮﻕ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﻠﺰﻗﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ ﺁﺧﺮﻳﻦ، ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ ﻻ ﻳﻌﺮﻓﻮﻥ، ﻭﻫﻮ ﻣﺘﻬﻢ ﻓﻴﻬﻢ، ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺨﻠﻘﻬﻢ".
-"ويضع علی اهل بيت رسول الله صلی الله عليه وسلم".
"رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اہل خانہ کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-
[ﺍﻟﻜﺎﻣﻞ في ضعفاء الرجال, تح : يحيی مختار غزاوی, ط3 ,ص 338,ج 2].
امام ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ:
"الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺒﺼﺮﺓ ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ،ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺷﻴﻮﺥ ﻟﻢ ﻳﺮﻫﻢ ،ﻭﻳﻀﻊ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺭﺁﻫﻢ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ،ﻛﺎﻥ ﺑﺒﻐﺪﺍﺩ ﻓﻲ ﺃﺣﻴﺎﺀ ﺃﻳﺎﻣﻨﺎ...". المجرحين لابن حبان.
امام دار قطنی:
"ﺃنا حمزة بن يوسف السهمي قال سالت الدار قطني عن الحسن بن علي بن صالح ﺃبي سعيد البصري قال: ﺫﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ . قلت :كان يسمی الذئب؟ قال :نعم".
[تكمة الاكمال لابي بكر محمد بن عبد الغني البغدادي ،تح : د.عب القيوم عبد رب النبي:، ط1، جامعة ام القری، ص661 ، ج2].
"حمزه بن یوسف سہمی کہتے ہیں کہ میں نے دار قطنی سے ابو سعید الحسن بن علی بن صالح بصری کے بارے میں استفسار کیا اپ نے فرمایا وہ متروک)کذاب( ہے ,پہر پوچھا کیا وہ الذئب کے نام سے جانا جاتا تھا ؟ اپ نے اثبات میں جواب مرحمت فرمایا"-
شیخ حمزہ بن يوسف سہمی:
"ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻳﻘﻮﻝ : الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﺃﺻﻠﻪ ﺑﺼﺮﻱ ،ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ، ﻛﺬَّﺍﺏ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ، ﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﻞ".
سوالات حمزة للدارقطني: 1/221.
"حمزه بن يوسف کہتے ہیں کہ میں نے ابو محمد بصری کو یہ کہتے سنا ہے: ابو سعید الحسن بن علی بن زکریا اصلا بصری ہے ,بغداد میں سکونت اختيار کی ,رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ جھوٹ باندھتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا جسے اپ نے ارشاد نہیں فرمایا"-
علامہ ابن حجر عسقلانی:
"فاما ابن عدي فقال الحسن بن علي بن صالح ابو سعيد العدوي البصري يضع الحديث". [لسان الميزان]
علامہ ذہبی:
"قلت: العدوي وضاع". [كشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث].
علامہ جلال الدين سيوطی:
"لان ابا سعيد العدوي كان كذابا افاكا وضاعا". [اللالي المصنوعة: 1/335].
ابن سمعان كذاب والحسن بن علي بن زكريا هو ابو سعيد العدوي احد المشهورين بوضع الحديث. [الذيل: 25].
علامہ طاہر فتنی گجراتی:
"وابو سعيد العدوي مشهور بالوضع". تذكرة الموضوعات
"ابو سعید عدوی حديث گڑھنے کے لیے مشہور ہے"-
خلاصه القول یہ ہے کہ جس محدث کے بارے میں علماء متروک واہی اور کذاب جیسے الفاظ استعمال کریں، اس کی بیان کردہ حديث قبل قبول نہ ہوگی، اور نہ اس پہ عمل کیا جائے گا، محدثین فرماتے ہیں:
"ﻭﺇﺫﺍ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻭ ﻭﺍﻫﻴﻪ، ﺃﻭ ﻛﺬﺍﺏ ﻓﻬﻮ ﺳﺎﻗﻂ ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻻ ﻳﻌﺘﺒﺮ ﺑﻪ ﻭﻻ ﻳﺴﺘﺸﻬﺪ. [ﺗﺪﺭﻳﺐ ﺍﻟﺮﺍﻭﻱ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺗﻘﺮﻳﺐ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ].
"جب محدثین کسی کو مترک الحديث، واہی یا کذاب کہیں تو وہ ساقط ہوجاتا ہے، اور اس سے روایت کی گئی حديث نہیں لکہی جاتی ہے، اور نہ اس کا کچھ اعتبار ہوتاہے، اور نہ ہی اس سے استشہاد کیا جاتاہے"-