التسميات

الاثنين، 27 مايو 2019

السيرة الذاتية

نام: توحید احمد

ولدیت: عبید الرحمن

ماں کا نام: اختر النساء بنت یار محمد خان

نسب: توحيد أحمد بن عبيد الرحمن بن محمود الحسن بن نور محمد بن فضل محمد بن فتح الله بن رمضان محمد

جائے پیدائش: اکبر پور جمنی، پوسٹ تلولی، سدھارتھ نگر

تاریخ پیدائش: 9/ مارچ، بروز اتوار 1986ء

لمبائی: 175cm

تعلیم لیاقت:
• دار العلوم علیمیہ، جمدا شاہی، بستی، یوپی:
عالمیت
فضیلت

• عربی فارسی بورڈ لکھنؤ:
منشی، مولوی، عالم، کامل، فاضل
• كلية الدعوة الإسلامية، طرابلس، لیبیا:
معهد اللغة العربية
المرحلة الجامعية
المرحلة التمهيدية
مرحلة البحث

قلمی خدمات:
عربی
1- الإمام زفر ومكانته العلمية في الفقه والحديث
2- البرهان في إبطال طلاق السكران
3- المولد النبوي بين البدع والاستحسان
4- الروض البهيح في بيان صلاة التسبيح
5- تحقيق اولى الرشد في غزوة احد
6- حقيقة التوسل من الكتاب والسنة
7- خصائص قراءة عاصم برواية حفص لغويا ونحويا خلال دراسة سورة يس
8- ذكر التكبير في قراءة ابن كثير
9- ردة السكران في منظور الإسلام
10- سرور الفئات في شرح إنما الﻹعمال بالنيات
11- سلام الله عند إختضاركم فقرءوا يس عند موتاكم
12- تفسير {أن ليس للإنسان إلا ما سعى}
13- صهي الغليل في نكاح التحليل
14- رسالة في طلاق المكره
15- حياة الإمام محمد بن الحسن الشيباني
16- شفاء الظمآن بأن النية من القلب ليست باللسان
17-  آثار النور في رخصة النساء عن زيارة القبور
18- أحكام النية في صوم النافلة
19- أربعون حديثا
20- إعلام الأعلام في هجرة الأنام
21- الدرة الثمينة في نية الغنيمة
22- القول الفيد المختصر في إسلام قرين خير البشر
23- المشكاة في تحقيق نية الزكاة
24- المنبسكات في دفع الزكاة
25- إنباء نية البؤبؤ في الغسل والوضوء
26- مکانة الصيام في الإسلام
27- نزهة الأعيان في إمامة العميان
28- نكاح المشتاق بنية الطلاق
29- هل يفطر الصوم بالغيبة والنميمة فعل الحرام؟
30- الأربعون في الملعونين
31- الدر المنجوم في صلاة إدبار النجوم
32- الكلام الجلي في سترة المصلي
33- تنبيه الأفكار في زيارة الكفار
34- خلاصة البيان في نية رمضان
 35- الأربعون في الملعونين
36- شرح الحديث: حياتي خير لكم ووفاتي خير لكم
37- مشروعية المصافة والصلاة خلف المراهق
38- جواز التبرك بآثار الصالحين.
39- حكم الصلاة علی الجنازة في المسجد
40- الالتفات وأنواعه دراسة تطبيقية في سورة الفاتحة

تحقيق وتعليق:
 41- الحكم العرفانية في معان إرشادية وإشارات قرآنية للإمام متقي الهندي
42- رسالة في إتلاف كلاب المضرة للشيخ ساجقلي زاده
43- شرح حديث النبي صلى الله عليه وسلم اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد للشاه ولي الله الدهلوي
44- غاية الكمال في بيان أفضل الأعمال للإمام متقي الهندي
45- غاية المأمول والسلوك إلى الله تعالى للإمام متقي الهندي
46- فضائل معاوية للشيخ حياة محمد السندي
47- لذيذ السماع في بيان حجة الوداع للشيخ حياة محمد السندي
48- نعم المعيار والمقياس لمعرفة مراتب الناس للإمام متقي الهندي
49- المقدمة في الصلاة للإمام ابي الليث السمرقندي
50- خواص الفاتحة للإمام أحمد بن موسى البيلي المالكي

اردو:
51- غازی (سید سالار مسعود غازی کی سوانح حیات)
52- شرح جلالين سوره فاتحه
53- رام راون تنازع ایک تجزیاتی مطالعہ
54- محمد ہادی عالم (بغیر نقطے کے)
55- فتح مبین (غزوہ بدر کے  بارے میں)
56- گناہوں سے اجتناب کے قرآنی طریقے
57- بچوں پر شفقت رسول
58- قرآن کریم اور گلہ بانی معاشی نقطہ نظر سے
59- ہندوستانی محدثین اور ان کی خدمات
60- عربی زبان وادب کی اہمیت ومعنویت
61- کیا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلی ہر بات وحی الہی ہے؟
62- سورت یوسف کی ایت ھمت بہ وھم بھا پہ ایک نظر
63- غذائی بحران اور ہندوستان
64- وضو اور تقاضہ فطرت
65- موطأ امام محمد میں مرویات امام اعظم سے مرویات
66- ابو البشر حضرت نوح علیہ السلام کا اسلوب دعوت وتبلیغ

فتح مبین (غزوۂ بدر سے متعلق)


اس رسالہ کو یہاں سے ڈائنلوڈ کریں 👇
https://archive.org/details/tauhidjamdawi_gmail/page/n1

السبت، 18 مايو 2019

فضائل علی -رضی الله تعالی عنہ- میں بیان کردہ چند حدیثوں کا علمی جائزہ

كاتب.... ابو الفؤاد توحيد احمد طرابلسی
---------------------

الله کے رسول -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کے چوتھے خلیفہ حضرت علی -رضی الله تعالی عنہ- ہیں، آپ کے فضائل میں کئی حدیثیں گڑھی گئی ہیں، یہ مختلف ادوار میں عوامی جذبات کو فرش سے عرش پہ پہونچانے کا کام کرتی رہی ہیں۔ 

بعض مقررین ایسی ہی حدیثوں کی تاک میں رہتے ہیں، ہاتھ لگتے ہی بڑی چاہ سے بیان کرتے ہیں، اور بڑے بڑے اسٹیج لمحوں میں الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں، ایسی ہی چند حدیثیں علمی تحقيق  کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

تمھید :
الله تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے انسان کی تخليق مٹی سے کی ہے: {ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺎﺱُ ﺇِﻥْ ﻛُﻨْﺘُﻢْ ﻓِﻲ ﺭَﻳْﺐٍ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﺒَﻌْﺚِ ﻓَﺈِﻧَّﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.

دوسری جگہ انسانی تخليق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: {ﻭَﻣِﻦْ ﺁﻳَﺎﺗِﻪِ ﺃَﻥْ ﺧَﻠَﻘَﻜُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.

چوں کہ بعد وصال انسان کو اسی مٹی میں لوٹ جانا ہے، اور ہر شخص وہاں دفن کیا جائے گا، جہاں کی خاک سے اس کی خمیر تیار کی گئی تھی، حضرت عبد الله -رضی الله تعالی عنہ- فرماتے ہیں:

"ایک حبشی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا، اس کی خبر سرکار دو عالم -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کو دی گئی، آپ نے فرمایا:

"دفن في الطينة التي خلق منها".[موضح اوهام الجمع والتفريق لابي بكر الخطيب البغدادي:217/2].

"اس مٹی میں دفن کیا گیا جہاں کی خاک سے اس کی پیدائش ہوئی"۔

روز جزاء ہر انسان کو دوبارہ اسی خاک سے اٹھ کہڑے ہونا ہے، {ﻣِﻨْﻬَﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻭَﻓِﻴﻬَﺎ ﻧُﻌِﻴﺪُﻛُﻢْ ﻭَﻣِﻨْﻬَﺎ ﻧُﺨْﺮِﺟُﻜُﻢْ ﺗَﺎﺭَﺓً ﺃُﺧْﺮَﻯ}.

اس تمھید کے بعد حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کی پیدائش کی طرف نظر کرتے ہیں، آپ سے متعلق اثنا عشریہ شیعوں کا عجیب وغريب عقیدہ ہے، جس کے مطابق رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش ایک ہی مٹی سے ہوئی ہے، تخليق سے جو مٹی بچی اس سے ان کے ائمہ کی پیدائش ہوئی، لہذا وہ دوسروں پہ عز وشرف میں فوقیت رکہتے ہیں، اس عقیدہ کو "عقيدة الطينة" کے نام سے جانا جاتا ہے-

اس عقیدہ کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت علی -رضی اللہ تعالی عنہ- روضہ رسول -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- میں محو استراحت نہیں ہیں، اسی "عقیدة الطينة" کی ایک حديث پیش ہے-

ﺣﺪﻳﺚ: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ )):

اس حديث كو ابن عساکر نے بسند مرفوع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ابو الفرج عبد الرحمن  بن علی جوزی نے اس حديث کو اپنی کتاب "الموضوعات "میں ذكر کیا ہے جس کی سند ومتن اس طرح ہے:

انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:

ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ".

 "رسول الله صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے، ہارون بن عمران، یحيی بن زکریا اور علی کو ایک مٹی سے پیدا کیا گیا-

اس حديث کی سند پہ ایک نظر: 
سابقہ حديث کی سند میں ایک نام ابو عمران موسی بن ابراہیم بن بحر مروزی کا ہے، جن کی یحيی بن معین نے تکذیب کی ہے اور امام دار قطنی وغيره نے متروک کہا ہے-

امام ذهبی رحمه الله تعالی نے مبینہ حديث کے علاوہ دو مزید حديثوں کو بیان کیا ہے جسے موسی بن ابراہیم نے گڑھا ہے-

اب موسی بن ابراہیم مروزی کے بارے میں چند ائمہ فن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

شیخ محمد بن ربیع جیزی:
"رايته وكان صاحب الفقه ثم جاء الی الجامع فتفقه مع قوم هناد ثم جاء بكتاب فقه فقرا في الجامع فجاءه اصحاب الحديث فقالوا له امل علينا فاملی عليهم عن ابن لهيعة وغيره شيئا لم يسمعه قط ولم يسمع هو قط حدیثا لا ادري ايش قصة ذاك الكتاب اشتراه او استعاره او وجده".

امام عقيلی:
منكر الحديث لا يتابع علی حديثه.

شیخ ابو نعیم:
موسی ضعيف.

امام ابن عدی:
موسی بن ابراهيم شيخ مجهول حدث بالمناكير عن الثقات وغيرهم.

امام ابن حبان:
كان مغفلا يلقن فيتلقن فالستحق الترك.

ایک غلط فہمی کی نشاہدہی:
امام ذہبی رحمه الله تعالی نے اس حديث کو شیخ ابن جوزی کی کتاب سے اپنی کتاب "الموضوعات" میں نقل کیا ہے اس حديث کی درجہ بندی کرتے ہوئے ابن جوزی لکھتے ہیں:

"هذا حديث موضوع علی رسول الله صلی الله عليه وسلم والمتهم به المروزي".

جب ہم سند انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جدہ پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس میں محمد بن خلف مروزی کا نام پاتے ہیں۔

درحقيقت یہاں مروزی سے مراد موسی بن ابراہیم مروزی کی ذات ہے، مگر امام ذهبی رحمه الله تعالی کے پاس الموضوعات کا جو نسخہ تھا، اس میں موسی بن ابراہیم مروزی کا نام ساقط تھا، اس لیے امام ذہبی رحمه الله تعالی کو مغالطہ ہوا، اور آپ نے مروزی سے محمد بن خلف مروزی کی ذات کو سمجھا -

حديث: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ )):
اس حديث کو جعفر بن احمد بن علی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، اس حديث کے الفاظ یہ ہیں:

"ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ، ﻭﻛﻨﺎ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻦ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﺨﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﺑﺄﻟﻔﻲ ﻋﺎﻡ، ﺛﻢ ﺧﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﻓﺎﻧﻘﻠﺒﻨﺎ ﻓﻲ ﺃﺻﻼﺏ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻨﺎ ﻓﻲ ﺻﻠﺐ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻄﻠﺐ، ﺛﻢ ﺷﻖ ﺍﺳﻤﻴﻨﺎ ﻣﻦ ﺍﺳﻤﻪ؛ ﻓﺎﻟﻠﻪ ﺍﻟﻤﺤﻤﻮﺩ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻷﻋﻠﻰ ﻭﻋﻠﻲ ﻋﻠﻲ".

"مجھے اور علی کو ایک نور سے پیدا کیا گیا اللہ تعالی ادم علیہ السلام کو پیدا کرے، اس سے دو ہزار سال پہلے ہم عرش کی داہنی جانب تھے پہر اللہ تعالی نے ادم کو تخلیق کیا، پہر ہم لوگوں کی پیٹھ میں آگیے،  پہر ہم عبد المطلب کے صلب میں آئے، پہر اللہ تعالی نے ہمارے ناموں کو اپنے اسم گرامی سے بنایا اللہ محمود ہے، اور میں محمد ہوں اللہ اعلی ہے، اور علی علی ہے"-

اس حديث کے راویوں میں ایک نام جعفر بن احمد کا بھی ہے، جس کے بارے میں علماے جرح وتعديل کا کہنا ہے کہ یہ شخص حديث گڑھتا تھا، پہر اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف کر دیتا، چند ماہرین فن کی اراء ذيل میں مندرج ہیں، جس سے اس شخص کی كذب بیانی سمجھنے میں آسانی ہوگی:

ابن عدی (280-364ھ)
-ﻛﺘﺒﺖ ﻋﻨﻪ بمصر في الدخلة الاولی سنة تسع وتسعين مئتین وكتبت في الدخلة الثانية في سنة اربع وثلاثين مئة، ﻭﺃظن فيها ﻣﺎﺕ وحدَّﺛَﻨَﺎ وهو ﻋَﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ كاتب الليث ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﻭَﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺍﻟﺘﻨﻴﺴﻲ.... ﺑﺄﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻛﻨﺎ ﻧﺘﻬﻤﻪ ﺑﻮﺿﻌﻬﺎ ،ﺑﻞ ﻧﺘﻴﻘﻦ ﺫﻟﻚ ،ﻭﻛﺎﻥ مع ذلك ﺭﺍﻓﻀﻴﺎ.

"میں نے اس سے سن 299 میں جب پہلی بار مصر آیا حديث لکہی اور جب دوسری بار سن 334 میں مصر انا ہوا اس وقت بھی حديث لکہی  شاید اسی سال اس کا انتقال بھی ہوا اس نے ہم سے ليث کے کاتب ابو صالح سعید بن عفیر اور عبد اللہ بن یوسف تینسی سے حديث بیان کی.... جعلی حدیثیں ہم اس پر جعل ساز ہونے کی تہمت رکہتے تھے بلکہ ہمیں اس کے جعل ساز ہونے کا یقین تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ رافضی بھی تھا"-

-وكان يضع الحديث علی اهل البيت.
"وہ اہل بیت کے بارے میں حدیثیں گڑھتا تھا"-

-وﻋﺎﻣﺔ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻭﻛﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺍﻟﺤﻴﺎﺀ ﻓﻲ ﺩﻋﺎﻭﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ لعله ﻟﻢ ﻳﻠﺤﻘﻬﻢ ﻭﻭﺿﻊ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ وانه كان يحدثنا ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺑﻜﻴﺮ باﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﺴﺘﻘﻴﻤﺔ  بنسخة الليث بمثل هذه الاحاديث التي ذكرتها عنه وغير ذلك.

ابو سعيد بن يونس بن عبد الاعلی:
"كان رافضيا كذابا يضع الحديث في سب اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم".

"بھت بڑا جھوٹا رافضی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو گالی دینے کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-

دار قطنی (306-385ھ)
"ﻛﺎﻥ ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﺑﺎﻷﺑﺎﻃﻴﻞ".

"حديث گرھتا تھا اور ابن عفیر کی جانب نسبت کر کے باطل باتیں بیان کرتا تھا"-

عبد الغنی ازدی(332-409ھ)
"ﻭﻫﺬﺍ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻣﺸﻬﻮﺭ ﺑﺒﻠﺪﻧﺎ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﺗﺮﻙ ﺣﻤﺰﺓ ﺍﻟﻜﻨﺎﻧﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺑﻴﺎﻥ ﻳﻌﺮﻑ ﺑﺎﺑﻦ ﺍﻟﻤﺎﺳﺢ".

"یہ شخص ہمارے ملک میں اپنے جھوٹ کے سبب مشہور ہے، حمزہ کنانی نے اس کی حديث کو ترک کر دیا تھا، ان سب باتوں کے باجود جعفر بن احمد بن علی بن بیان "ابن ماسح" کے نام سے جانا جاتا ہے"-

ابو سعید نقاش (414ھ):
"ﺣﺪَّﺙ ﺑﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ".

علامه ذہبی (673-748ھ):
"ﻭﻣﻦ ﺃﻛﺎﺫﻳﺒﻪ : ﺑﺴﻨﺪﻩ ﺇﻟﻰ ﻋﻠﻲ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﻳﺮﻓﻌﺎﻧﻪ : ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ ".

"اس کے جھوٹ میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے بسند مرفوع حضرت علی اور جابر رضی الله تعالی عنہما سے یہ بیان کیا ہے:
 ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ .

بے شک اللہ تعالی نے ﺁﺩﻡ علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اس لیے ان کی اولاد پر مٹی کہانا حرام کردیا ہے"-

حديث:ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞ: 
اس حديث کو امام احمد  رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب "فضائل الصحابة " 2/662 میں بسند مرفوع حضرت سلمان رضی الله تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، حديث کے الفاظ بسند یہ ہیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻗﺜﻨﺎ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ:
"ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞَّ ، ﻗَﺒْﻞَ ﺃَﻥْ ﻳَﺨْﻠُﻖَ ﺁﺩَﻡَ ﺑِﺄَﺭْﺑَﻌَﺔَ ﻋَﺸَﺮَ ﺃَﻟْﻒَ ﻋَﺎﻡٍ ، ﻓَﻠَﻤَّﺎ ﺧَﻠَﻖَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺁﺩَﻡَ ﻗَﺴَﻢَ ﺫَﻟِﻚَ ﺍﻟﻨُّﻮﺭَ ﺟُﺰْﺀَﻳْﻦِ، ﻓَﺠُﺰْﺀٌ ﺃَﻧَﺎ، ﻭَﺟُﺰْﺀٌ ﻋَﻠِﻲٌّ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺍﻟﺴَّﻼﻡ ُ".

"حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں اور علی اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت  ادم علیہ السلام کی پیدائش سے چودہ ہزار سال پہلے بشکل نور تھے، جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس نور کے دو حصے کیے ایک جزء میں ہوں اور ایک جزء علی ہیں"-

اس حديث کو امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے علاوہ ابن ﻋﺴﺎﻛﺮ ,‏علی ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ طیب مغازلی, اﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯمی وغيره معروف علماء نے بھی اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے-

اس حديث کی سند پہ ایک نظر: 
مبینہ علماء نے اسے الحسن نامی محدث سے روایت کیا ہے الحسن کون ہیں ؟ان کی تعیین کے لیے اس حدیث کی کچھ اسناد ملاحظہ فرمائیں:

-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﺑﻦ ﺍﻟﺒﻨﺎ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺠﻮﻫﺮﻱ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺃﻧﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ... ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ لابن عساكر ‏:42/67 .

-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺳﻬﻞ ﺍﻟﻨﺤﻮﻱ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺍﻟﺤﻠﺒﻲ ﺍﻻﺧﺒﺎﺭﻱ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺸﻤﺸﺎﻃﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ...ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لعلي بن محمد بن الطيب المغازلي: ﺹ 87.

-ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺷﻬﺮﺩﺍﺭ ﻫﺬﺍ ﺍﺟﺎﺯﺓ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪﻭﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻬﻤﺪﺍﻧﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﻰ ﻣﺤﻤﺪﺍ " ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻳﻘﻮﻝ : ﻛﻨﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻧﻮﺭﺍ " ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻣﻄﺒﻘﺎ... ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لاﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯﻡ ﺹ 145.

ان اسانید سے یہ تصریح ہوتی ہے کہ الحسن سے مقصود ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ بصری عدوی کی ذات ہے-

علاوہ ازیں امام احمد رحمہ الله تعالی نے جہاں اس حديث کو ذكر کیا ہے اس سے پہلے والی حديث ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ سے ہی روایت کی ہے اسی لیے اپ نے اس سند میں الحسن کہنے پہ ہی اکتفا کیا ہے,سابقہ حديث مع سند ومتن اس طرح ہے:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻗﺜﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻇﻬﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﺴﺪﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﻟﻤﺎ ﻋﻤﻼ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺍﻟﻮﻓﺎﺓ ﻗﺎﻝ: ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﻲ ﺃﺗﻘﺮﺏ ﺇﻟﻴﻚ ﺑﻮﻻﻳﺔ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ.

ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ بصری عدوی اور ائمہ جرح وتعدیل: 

ابو سعید حسن عدوی کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں:

امام ﺍﺑﻦ ﻋﺪی:
-"ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺴﺮﻕ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﻠﺰﻗﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ ﺁﺧﺮﻳﻦ، ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ ﻻ ﻳﻌﺮﻓﻮﻥ، ﻭﻫﻮ ﻣﺘﻬﻢ ﻓﻴﻬﻢ، ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺨﻠﻘﻬﻢ".
-"ويضع علی اهل بيت رسول الله صلی الله عليه وسلم".

"رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اہل خانہ کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-
[ﺍﻟﻜﺎﻣﻞ ‏في ضعفاء الرجال, تح : يحيی مختار غزاوی, ط3 ,ص 338,ج 2].

امام ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ:
"الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺒﺼﺮﺓ ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ،ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺷﻴﻮﺥ ﻟﻢ ﻳﺮﻫﻢ ،ﻭﻳﻀﻊ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺭﺁﻫﻢ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ،ﻛﺎﻥ ﺑﺒﻐﺪﺍﺩ ﻓﻲ ﺃﺣﻴﺎﺀ ﺃﻳﺎﻣﻨﺎ...". المجرحين لابن حبان.

امام دار قطنی:
"ﺃنا حمزة بن يوسف السهمي قال سالت الدار قطني عن الحسن بن علي بن صالح ﺃبي سعيد البصري قال: ﺫﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ . قلت :كان يسمی الذئب؟ قال :نعم".
[تكمة الاكمال لابي بكر محمد بن عبد الغني البغدادي ،تح : د.عب القيوم عبد رب النبي:، ط1، جامعة ام القری، ص661 ، ج2].

"حمزه بن یوسف سہمی کہتے ہیں کہ میں نے دار قطنی سے ابو سعید الحسن بن علی بن صالح بصری کے بارے میں استفسار کیا اپ نے فرمایا وہ متروک)کذاب( ہے ,پہر پوچھا کیا وہ الذئب کے نام سے جانا جاتا تھا ؟ اپ نے اثبات میں جواب مرحمت فرمایا"-

شیخ حمزہ بن يوسف سہمی:
"ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻳﻘﻮﻝ : الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﺃﺻﻠﻪ ﺑﺼﺮﻱ ،ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ، ﻛﺬَّﺍﺏ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ، ﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﻞ".

سوالات حمزة للدارقطني: 1/221.
"حمزه بن يوسف کہتے ہیں کہ میں نے ابو محمد بصری کو یہ کہتے سنا ہے: ابو سعید الحسن بن علی بن زکریا اصلا بصری ہے ,بغداد میں سکونت اختيار کی ,رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ جھوٹ باندھتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا جسے اپ نے ارشاد نہیں فرمایا"-

علامہ ابن حجر عسقلانی:
"فاما ابن عدي فقال الحسن بن علي بن صالح ابو سعيد العدوي البصري يضع الحديث". [لسان الميزان]

علامہ ذہبی:
"قلت: العدوي وضاع". [كشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث]. 

علامہ جلال الدين سيوطی:
"لان ابا سعيد العدوي كان كذابا افاكا وضاعا". [اللالي المصنوعة: 1/335].

ابن سمعان كذاب والحسن بن علي بن زكريا هو ابو سعيد العدوي احد المشهورين بوضع الحديث. [الذيل: 25].

علامہ طاہر فتنی گجراتی:
"وابو سعيد العدوي مشهور بالوضع". تذكرة الموضوعات
"ابو سعید عدوی حديث گڑھنے کے لیے مشہور ہے"-

خلاصه القول یہ ہے کہ جس محدث کے بارے میں علماء متروک واہی اور کذاب جیسے الفاظ استعمال کریں، اس کی بیان کردہ حديث قبل قبول نہ ہوگی، اور نہ اس پہ عمل کیا جائے گا، محدثین فرماتے ہیں:

"ﻭﺇﺫﺍ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻭ ﻭﺍﻫﻴﻪ، ﺃﻭ ﻛﺬﺍﺏ ﻓﻬﻮ ﺳﺎﻗﻂ ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻻ ﻳﻌﺘﺒﺮ ﺑﻪ ﻭﻻ ﻳﺴﺘﺸﻬﺪ. [ﺗﺪﺭﻳﺐ ﺍﻟﺮﺍﻭﻱ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺗﻘﺮﻳﺐ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ].

"جب محدثین کسی کو مترک الحديث، واہی یا کذاب کہیں تو وہ ساقط ہوجاتا ہے، اور اس سے روایت کی گئی حديث نہیں لکہی جاتی ہے، اور نہ اس کا کچھ اعتبار ہوتاہے، اور نہ ہی اس سے استشہاد کیا جاتاہے"-

فضائل علی -رضی اللہ تعالی عنہ- میں بیان کردہ چند حدیثوں کا علمی جائزہ

كاتب.... ابو الفؤاد توحيد احمد طرابلسی
---------------------

الله کے رسول -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کے چوتھے خلیفہ حضرت علی -رضی الله تعالی عنہ- ہیں، آپ کے فضائل میں کئی حدیثیں گڑھی گئی ہیں، یہ مختلف ادوار میں عوامی جذبات کو فرش سے عرش پہ پہونچانے کا کام کرتی رہی ہیں۔ 

بعض مقررین ایسی ہی حدیثوں کی تاک میں رہتے ہیں، ہاتھ لگتے ہی بڑی چاہ سے بیان کرتے ہیں، اور بڑے بڑے اسٹیج لمحوں میں الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں، ایسی ہی چند حدیثیں علمی تحقيق  کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

تمھید :
الله تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے انسان کی تخليق مٹی سے کی ہے: {ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺎﺱُ ﺇِﻥْ ﻛُﻨْﺘُﻢْ ﻓِﻲ ﺭَﻳْﺐٍ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﺒَﻌْﺚِ ﻓَﺈِﻧَّﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.

دوسری جگہ انسانی تخليق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: {ﻭَﻣِﻦْ ﺁﻳَﺎﺗِﻪِ ﺃَﻥْ ﺧَﻠَﻘَﻜُﻢْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺏ}.

چوں کہ بعد وصال انسان کو اسی مٹی میں لوٹ جانا ہے، اور ہر شخص وہاں دفن کیا جائے گا، جہاں کی خاک سے اس کی خمیر تیار کی گئی تھی، حضرت عبد الله -رضی الله تعالی عنہ- فرماتے ہیں:

"ایک حبشی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا، اس کی خبر سرکار دو عالم -صلی الله تعالی علیہ وسلم- کو دی گئی، آپ نے فرمایا:

"دفن في الطينة التي خلق منها".[موضح اوهام الجمع والتفريق لابي بكر الخطيب البغدادي:217/2].

"اس مٹی میں دفن کیا گیا جہاں کی خاک سے اس کی پیدائش ہوئی"۔

روز جزاء ہر انسان کو دوبارہ اسی خاک سے اٹھ کہڑے ہونا ہے، {ﻣِﻨْﻬَﺎ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎﻛُﻢْ ﻭَﻓِﻴﻬَﺎ ﻧُﻌِﻴﺪُﻛُﻢْ ﻭَﻣِﻨْﻬَﺎ ﻧُﺨْﺮِﺟُﻜُﻢْ ﺗَﺎﺭَﺓً ﺃُﺧْﺮَﻯ}.

اس تمھید کے بعد حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کی پیدائش کی طرف نظر کرتے ہیں، آپ سے متعلق اثنا عشریہ شیعوں کا عجیب وغريب عقیدہ ہے، جس کے مطابق رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش ایک ہی مٹی سے ہوئی ہے، تخليق سے جو مٹی بچی اس سے ان کے ائمہ کی پیدائش ہوئی، لہذا وہ دوسروں پہ عز وشرف میں فوقیت رکہتے ہیں، اس عقیدہ کو "عقيدة الطينة" کے نام سے جانا جاتا ہے-

اس عقیدہ کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت علی -رضی اللہ تعالی عنہ- روضہ رسول -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- میں محو استراحت نہیں ہیں، اسی "عقیدة الطينة" کی ایک حديث پیش ہے-

ﺣﺪﻳﺚ: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ )):

اس حديث كو ابن عساکر نے بسند مرفوع حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ابو الفرج عبد الرحمن  بن علی جوزی نے اس حديث کو اپنی کتاب "الموضوعات "میں ذكر کیا ہے جس کی سند ومتن اس طرح ہے:

انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:

ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﻃﻴﻨﺔ ﻭﺍﺣﺪﺓ".

 "رسول الله صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے، ہارون بن عمران، یحيی بن زکریا اور علی کو ایک مٹی سے پیدا کیا گیا-

اس حديث کی سند پہ ایک نظر: 
سابقہ حديث کی سند میں ایک نام ابو عمران موسی بن ابراہیم بن بحر مروزی کا ہے، جن کی یحيی بن معین نے تکذیب کی ہے اور امام دار قطنی وغيره نے متروک کہا ہے-

امام ذهبی رحمه الله تعالی نے مبینہ حديث کے علاوہ دو مزید حديثوں کو بیان کیا ہے جسے موسی بن ابراہیم نے گڑھا ہے-

اب موسی بن ابراہیم مروزی کے بارے میں چند ائمہ فن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

شیخ محمد بن ربیع جیزی:
"رايته وكان صاحب الفقه ثم جاء الی الجامع فتفقه مع قوم هناد ثم جاء بكتاب فقه فقرا في الجامع فجاءه اصحاب الحديث فقالوا له امل علينا فاملی عليهم عن ابن لهيعة وغيره شيئا لم يسمعه قط ولم يسمع هو قط حدیثا لا ادري ايش قصة ذاك الكتاب اشتراه او استعاره او وجده".

امام عقيلی:
منكر الحديث لا يتابع علی حديثه.

شیخ ابو نعیم:
موسی ضعيف.

امام ابن عدی:
موسی بن ابراهيم شيخ مجهول حدث بالمناكير عن الثقات وغيرهم.

امام ابن حبان:
كان مغفلا يلقن فيتلقن فالستحق الترك.

ایک غلط فہمی کی نشاہدہی:
امام ذہبی رحمه الله تعالی نے اس حديث کو شیخ ابن جوزی کی کتاب سے اپنی کتاب "الموضوعات" میں نقل کیا ہے اس حديث کی درجہ بندی کرتے ہوئے ابن جوزی لکھتے ہیں:

"هذا حديث موضوع علی رسول الله صلی الله عليه وسلم والمتهم به المروزي".

جب ہم سند انبانا ابو منصور القزاز قال انبانا ابوبكر احمد بن علي بن ثابت قال اخبرني علي بن الحسن بن محمد الدقاق قال حدثنا محمد بن اسماعيل الوراق قال حدثنا ابراهيم بن الحسين بن داود العطار قال حدثنا محمد بن خلف المروزي قال حدثنا موسی بن ابراهيم قال حدثنا موسی بن جعفر عن ابيه عن جدہ پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس میں محمد بن خلف مروزی کا نام پاتے ہیں۔

درحقيقت یہاں مروزی سے مراد موسی بن ابراہیم مروزی کی ذات ہے، مگر امام ذهبی رحمه الله تعالی کے پاس الموضوعات کا جو نسخہ تھا، اس میں موسی بن ابراہیم مروزی کا نام ساقط تھا، اس لیے امام ذہبی رحمه الله تعالی کو مغالطہ ہوا، اور آپ نے مروزی سے محمد بن خلف مروزی کی ذات کو سمجھا -

حديث: (( ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ )):
اس حديث کو جعفر بن احمد بن علی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، اس حديث کے الفاظ یہ ہیں:

"ﺧﻠﻘﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ، ﻭﻛﻨﺎ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻦ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﺨﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﺑﺄﻟﻔﻲ ﻋﺎﻡ، ﺛﻢ ﺧﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﺩﻡ ﻓﺎﻧﻘﻠﺒﻨﺎ ﻓﻲ ﺃﺻﻼﺏ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻨﺎ ﻓﻲ ﺻﻠﺐ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻄﻠﺐ، ﺛﻢ ﺷﻖ ﺍﺳﻤﻴﻨﺎ ﻣﻦ ﺍﺳﻤﻪ؛ ﻓﺎﻟﻠﻪ ﺍﻟﻤﺤﻤﻮﺩ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻷﻋﻠﻰ ﻭﻋﻠﻲ ﻋﻠﻲ".

"مجھے اور علی کو ایک نور سے پیدا کیا گیا اللہ تعالی ادم علیہ السلام کو پیدا کرے، اس سے دو ہزار سال پہلے ہم عرش کی داہنی جانب تھے پہر اللہ تعالی نے ادم کو تخلیق کیا، پہر ہم لوگوں کی پیٹھ میں آگیے،  پہر ہم عبد المطلب کے صلب میں آئے، پہر اللہ تعالی نے ہمارے ناموں کو اپنے اسم گرامی سے بنایا اللہ محمود ہے، اور میں محمد ہوں اللہ اعلی ہے، اور علی علی ہے"-

اس حديث کے راویوں میں ایک نام جعفر بن احمد کا بھی ہے، جس کے بارے میں علماے جرح وتعديل کا کہنا ہے کہ یہ شخص حديث گڑھتا تھا، پہر اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف کر دیتا، چند ماہرین فن کی اراء ذيل میں مندرج ہیں، جس سے اس شخص کی كذب بیانی سمجھنے میں آسانی ہوگی:

ابن عدی (280-364ھ)
-ﻛﺘﺒﺖ ﻋﻨﻪ بمصر في الدخلة الاولی سنة تسع وتسعين مئتین وكتبت في الدخلة الثانية في سنة اربع وثلاثين مئة، ﻭﺃظن فيها ﻣﺎﺕ وحدَّﺛَﻨَﺎ وهو ﻋَﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ كاتب الليث ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﻭَﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺍﻟﺘﻨﻴﺴﻲ.... ﺑﺄﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻛﻨﺎ ﻧﺘﻬﻤﻪ ﺑﻮﺿﻌﻬﺎ ،ﺑﻞ ﻧﺘﻴﻘﻦ ﺫﻟﻚ ،ﻭﻛﺎﻥ مع ذلك ﺭﺍﻓﻀﻴﺎ.

"میں نے اس سے سن 299 میں جب پہلی بار مصر آیا حديث لکہی اور جب دوسری بار سن 334 میں مصر انا ہوا اس وقت بھی حديث لکہی  شاید اسی سال اس کا انتقال بھی ہوا اس نے ہم سے ليث کے کاتب ابو صالح سعید بن عفیر اور عبد اللہ بن یوسف تینسی سے حديث بیان کی.... جعلی حدیثیں ہم اس پر جعل ساز ہونے کی تہمت رکہتے تھے بلکہ ہمیں اس کے جعل ساز ہونے کا یقین تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ رافضی بھی تھا"-

-وكان يضع الحديث علی اهل البيت.
"وہ اہل بیت کے بارے میں حدیثیں گڑھتا تھا"-

-وﻋﺎﻣﺔ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ ،ﻭﻛﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺍﻟﺤﻴﺎﺀ ﻓﻲ ﺩﻋﺎﻭﻳﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ لعله ﻟﻢ ﻳﻠﺤﻘﻬﻢ ﻭﻭﺿﻊ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ وانه كان يحدثنا ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺑﻜﻴﺮ باﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﺴﺘﻘﻴﻤﺔ  بنسخة الليث بمثل هذه الاحاديث التي ذكرتها عنه وغير ذلك.

ابو سعيد بن يونس بن عبد الاعلی:
"كان رافضيا كذابا يضع الحديث في سب اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم".

"بھت بڑا جھوٹا رافضی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو گالی دینے کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-

دار قطنی (306-385ھ)
"ﻛﺎﻥ ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻔﻴﺮ ﺑﺎﻷﺑﺎﻃﻴﻞ".

"حديث گرھتا تھا اور ابن عفیر کی جانب نسبت کر کے باطل باتیں بیان کرتا تھا"-

عبد الغنی ازدی(332-409ھ)
"ﻭﻫﺬﺍ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻣﺸﻬﻮﺭ ﺑﺒﻠﺪﻧﺎ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﺗﺮﻙ ﺣﻤﺰﺓ ﺍﻟﻜﻨﺎﻧﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺑﻴﺎﻥ ﻳﻌﺮﻑ ﺑﺎﺑﻦ ﺍﻟﻤﺎﺳﺢ".

"یہ شخص ہمارے ملک میں اپنے جھوٹ کے سبب مشہور ہے، حمزہ کنانی نے اس کی حديث کو ترک کر دیا تھا، ان سب باتوں کے باجود جعفر بن احمد بن علی بن بیان "ابن ماسح" کے نام سے جانا جاتا ہے"-

ابو سعید نقاش (414ھ):
"ﺣﺪَّﺙ ﺑﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ".

علامه ذہبی (673-748ھ):
"ﻭﻣﻦ ﺃﻛﺎﺫﻳﺒﻪ : ﺑﺴﻨﺪﻩ ﺇﻟﻰ ﻋﻠﻲ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﻳﺮﻓﻌﺎﻧﻪ : ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ ".

"اس کے جھوٹ میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے بسند مرفوع حضرت علی اور جابر رضی الله تعالی عنہما سے یہ بیان کیا ہے:
 ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻣﻦ ﻃﻴﻦ ﻓﺤﺮﻡ ﺃﻛﻞ ﺍﻟﻄﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺫﺭﻳﺘﻪ .

بے شک اللہ تعالی نے ﺁﺩﻡ علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اس لیے ان کی اولاد پر مٹی کہانا حرام کردیا ہے"-

حديث:ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞ: 
اس حديث کو امام احمد  رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب "فضائل الصحابة " 2/662 میں بسند مرفوع حضرت سلمان رضی الله تعالی عنہ سے روایت کیا ہے، حديث کے الفاظ بسند یہ ہیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻗﺜﻨﺎ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ:
"ﻛُﻨْﺖُ ﺃَﻧَﺎ ﻭَﻋَﻠِﻲٌّ ﻧُﻮﺭًﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﺰَّ ﻭَﺟَﻞَّ ، ﻗَﺒْﻞَ ﺃَﻥْ ﻳَﺨْﻠُﻖَ ﺁﺩَﻡَ ﺑِﺄَﺭْﺑَﻌَﺔَ ﻋَﺸَﺮَ ﺃَﻟْﻒَ ﻋَﺎﻡٍ ، ﻓَﻠَﻤَّﺎ ﺧَﻠَﻖَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺁﺩَﻡَ ﻗَﺴَﻢَ ﺫَﻟِﻚَ ﺍﻟﻨُّﻮﺭَ ﺟُﺰْﺀَﻳْﻦِ، ﻓَﺠُﺰْﺀٌ ﺃَﻧَﺎ، ﻭَﺟُﺰْﺀٌ ﻋَﻠِﻲٌّ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺍﻟﺴَّﻼﻡ ُ".

"حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں اور علی اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت  ادم علیہ السلام کی پیدائش سے چودہ ہزار سال پہلے بشکل نور تھے، جب اللہ تعالی نے حضرت ادم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس نور کے دو حصے کیے ایک جزء میں ہوں اور ایک جزء علی ہیں"-

اس حديث کو امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے علاوہ ابن ﻋﺴﺎﻛﺮ ,‏علی ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ طیب مغازلی, اﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯمی وغيره معروف علماء نے بھی اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے-

اس حديث کی سند پہ ایک نظر: 
مبینہ علماء نے اسے الحسن نامی محدث سے روایت کیا ہے الحسن کون ہیں ؟ان کی تعیین کے لیے اس حدیث کی کچھ اسناد ملاحظہ فرمائیں:

-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﺑﻦ ﺍﻟﺒﻨﺎ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺠﻮﻫﺮﻱ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺃﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺃﻧﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻲ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ... ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ لابن عساكر ‏:42/67 .

-ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺳﻬﻞ ﺍﻟﻨﺤﻮﻱ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺍﻟﺤﻠﺒﻲ ﺍﻻﺧﺒﺎﺭﻱ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺸﻤﺸﺎﻃﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ، ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ...ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لعلي بن محمد بن الطيب المغازلي: ﺹ 87.

-ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺷﻬﺮﺩﺍﺭ ﻫﺬﺍ ﺍﺟﺎﺯﺓ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪﻭﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻬﻤﺪﺍﻧﻲ ﻛﺘﺎﺑﺔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﻟﻌﻄﺸﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﻌﺪﻭﻱ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻘﺪﺍﻡ ﺍﻟﻌﺠﻠﻲ ﺃﺑﻮ ﺍﻷﺷﻌﺚ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ ﻋﻦ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﻋﻦ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ ﺣﺒﻴﺒﻲ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﻰ ﻣﺤﻤﺪﺍ " ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻳﻘﻮﻝ : ﻛﻨﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﻋﻠﻲ ﻧﻮﺭﺍ " ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻣﻄﺒﻘﺎ... ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ لاﺧﻄﺐ ﺧﻮﺍﺭﺯﻡ ﺹ 145.

ان اسانید سے یہ تصریح ہوتی ہے کہ الحسن سے مقصود ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺯﻛﺮﻳﺎ بصری عدوی کی ذات ہے-

علاوہ ازیں امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے جہاں اس حديث کو ذكر کیا ہے اس سے پہلے والی حديث ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ سے ہی روایت کی ہے اسی لیے اپ نے اس سند میں الحسن کہنے پہ ہی اکتفا کیا ہے,سابقہ حديث مع سند ومتن اس طرح ہے:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻗﺜﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺜﻨﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺜﻨﺎ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻇﻬﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﺴﺪﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﻗﺎﻝ ﺛﻢ ﻟﻤﺎ ﻋﻤﻼ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺍﻟﻮﻓﺎﺓ ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﻲ ﺃﺗﻘﺮﺏ ﺇﻟﻴﻚ ﺑﻮﻻﻳﺔ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ.

ابو سعید ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ بصری عدوی اور ائمہ جرح وتعدیل: 

ابو سعید حسن عدوی کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں:

امام ﺍﺑﻦ ﻋﺪی:
-ﻳﻀﻊ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺴﺮﻕ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﻠﺰﻗﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ ﺁﺧﺮﻳﻦ ، ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ ﻻ ﻳﻌﺮﻓﻮﻥ ﻭﻫﻮ ﻣﺘﻬﻢ ﻓﻴﻬﻢ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺨﻠﻘﻬﻢ .
-ويضع علی اهل بيت رسول الله صلی الله عليه وسلم.

"رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اہل خانہ کے بارے میں حديث گڑھتا تھا"-
[ﺍﻟﻜﺎﻣﻞ ‏في ضعفاء الرجال, تح : يحيی مختار غزاوی, ط3 ,ص 338,ج 2].

امام ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ:
"الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺒﺼﺮﺓ ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ،ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺷﻴﻮﺥ ﻟﻢ ﻳﺮﻫﻢ ،ﻭﻳﻀﻊ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺭﺁﻫﻢ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ،ﻛﺎﻥ ﺑﺒﻐﺪﺍﺩ ﻓﻲ ﺃﺣﻴﺎﺀ ﺃﻳﺎﻣﻨﺎ...". المجرحين لابن حبان.

امام دار قطنی:
"ﺃنا حمزة بن يوسف السهمي قال سالت الدار قطني عن الحسن بن علي بن صالح ﺃبي سعيد البصري قال: ﺫﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ . قلت :كان يسمی الذئب؟ قال :نعم".
[تكمة الاكمال لابي بكر محمد بن عبد الغني البغدادي ،تح : د.عب القيوم عبد رب النبي:، ط1، جامعة ام القری، ص661 ، ج2].

"حمزه بن یوسف سہمی کہتے ہیں کہ میں نے دار قطنی سے ابو سعید الحسن بن علی بن صالح بصری کے بارے میں استفسار کیا اپ نے فرمایا وہ متروک)کذاب( ہے ,پہر پوچھا کیا وہ الذئب کے نام سے جانا جاتا تھا ؟ اپ نے اثبات میں جواب مرحمت فرمایا"-

شیخ حمزہ بن يوسف سہمی:
"ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ ﻳﻘﻮﻝ : الحسن بن علي بن زكريا ابو سعيد العدوي ﺃﺻﻠﻪ ﺑﺼﺮﻱ ،ﺳﻜﻦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ، ﻛﺬَّﺍﺏ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ، ﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠَّﻢ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﻞ".

سوالات حمزة للدارقطني: 1/221.
"حمزه بن يوسف کہتے ہیں کہ میں نے ابو محمد بصری کو یہ کہتے سنا ہے: ابو سعید الحسن بن علی بن زکریا اصلا بصری ہے ,بغداد میں سکونت اختيار کی ,رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ جھوٹ باندھتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا جسے اپ نے ارشاد نہیں فرمایا"-

علامہ ابن حجر عسقلانی:
"فاما ابن عدي فقال الحسن بن علي بن صالح ابو سعيد العدوي البصري يضع الحديث". [لسان الميزان]

علامہ ذہبی:
"قلت: العدوي وضاع". [كشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث]. 

علامہ جلال الدين سيوطی:
"لان ابا سعيد العدوي كان كذابا افاكا وضاعا". [اللالي المصنوعة: 1/335].

ابن سمعان كذاب والحسن بن علي بن زكريا هو ابو سعيد العدوي احد المشهورين بوضع الحديث. [الذيل: 25].

علامہ طاہر فتنی گجراتی:
"وابو سعيد العدوي مشهور بالوضع". تذكرة الموضوعات
"ابو سعید عدوی حديث گڑھنے کے لیے مشہور ہے"-

خلاصه القول یہ ہے کہ جس محدث کے بارے میں علماء متروک واہی اور کذاب جیسے الفاظ استعمال کریں، اس کی بیان کردہ حديث قبل قبول نہ ہوگی، اور نہ اس پہ عمل کیا جائے گا، محدثین فرماتے ہیں:

"ﻭﺇﺫﺍ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻭ ﻭﺍﻫﻴﻪ، ﺃﻭ ﻛﺬﺍﺏ ﻓﻬﻮ ﺳﺎﻗﻂ ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻻ ﻳﻌﺘﺒﺮ ﺑﻪ ﻭﻻ ﻳﺴﺘﺸﻬﺪ. [ﺗﺪﺭﻳﺐ ﺍﻟﺮﺍﻭﻱ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﺗﻘﺮﻳﺐ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ].

"جب محدثین کسی کو مترک الحديث، واہی یا کذاب کہیں تو وہ ساقط ہوجاتا ہے اور اس سے روایت کی گئی حديث نہیں لکہی جاتی ہے اور نہ اس کا کچھ اعتبار ہوتاہے اور نہ ہی اس سے استشہاد کیا جاتاہے"-

الخميس، 16 مايو 2019

حديث رسول -صلی الله تعالی علیه وسلم- (ﻻ ﺣﺴَﺪَ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ) کی تشریح وتوضيح

کاتب......: أبو الفؤاد توحيد احمد عليمی
...***....***....***....***....***....***....***....***...

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام علی سيد المرسلين، وعلی اله، واصحابه، واتباعه إلی يوم الدين.

صحابی رسول حضرت عبد الله ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ -ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ تعالی عنهما- فرماتے ہیں:

"ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭسلم-  (ﻻ ﺣﺴَﺪَ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ؛
- ﺭﺟﻞٌ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺎﻟًﺎ ﻓﺴﻠَّﻄﻪ ﻋﻠﻰ ﻫﻠَﻜﺘﻪ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻖ.
- ﻭﺭجلٌ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﻜﻤﺔَ ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻀﻲ ﺑﻬﺎ ﻭﻳﻌﻠِّﻤﻬﺎ). [متفق عليه].

"رسول الله -صلی الله تعالی علیه وسلم- نے ارشاد ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: "ﺣﺴﺪ [ﺭﺷﮏ] ‏دو لوگوں کے ساتھ ہی درست ہے:
1⃣ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ‏سے ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍلله تعالی ﻧﮯ دولت عطا کی ﺍﻭﺭ اسے [راہ] حق میں خرچ کرنے کی ﺗﻮﻓﯿﻖ دی-

2⃣اور ﺍﺱ ﺷﺨﺺ سے ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍلله تعالی ﻧﮯ ﻋﻠﻢ ﻭﺣﮑﻤﺖ سے نوازا، جس کے ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺳﮯ وہ ﻓﯿﺼﻠﮯ ‏کرتا ہو اور ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ دیتا ہو"-

اس حديث سے مستفاد بعض فوائد:

★ اپنے مال وعلم سے لوگوں کو فیضیاب کرنا احسان کے قبیل سے ہے، جس کا کوئی بدیل نہیں-

★ اس حديث میں "حسد" کا لفظ وارد ہوا ہے، یہ لفظ دو معنی پہ دلالت کرتا ہے، ایک یہ کہ کسی نعمت کی خواہش کرنا اور دوسرے کے پاس سے اس نعمت کے زوال کا متمنی ہونا-

دوسرا معنی "غبطه" کا ہے، یعنی کسی نعمت کی ارزو ہو، مگر دوسرے کے پاس سے اس کا زوال ہوجائے اس کی خواہش نہ ہو، جسے رشک کہا جاتا ہے، اس امر کی صراحت حضرت ابو ہریرہ -رضی الله تعالی عنہ- کی روایت سے ہوتی ہے، جس میں ہے:

"ﻻ ﺗﺤﺎﺳﺪ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ؛
- ﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﻬﻮ ﻳﺘﻠﻮﻩ ﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻠﻴﻞ ﻭﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ، ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻮﻝ: ﻟﻮ ﺃﻭﺗﻴﺖ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﺃﻭﺗﻲ ﻫﺬﺍ ﻟﻔﻌﻠﺖ ﻛﻤﺎ ﻳﻔﻌﻞ. 

- ﻭﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺎﻻ، ﻓﻬﻮ ﻳﻨﻔﻘﻪ ﻓﻲ ﺣﻘﻪ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻟﻮ ﺃﻭﺗﻴﺖ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﺃﻭﺗﻲ، ﻋﻤﻠﺖ ﻓﻴﻪ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ یعمل".

★ لغت کی مشہور کتاب "الصحاح" میں "غبطہ" کے بارے میں ہے:

"ﺍﻟﻐﺒﻂ ﺿﺮﺏ ﻣﻦ ﺍﻟﺤﺴﺪ، ﻭﻫﻮ ﺃﺧﻒ ﻣﻨﻪ".
"رشک حسد کی ایک قسم ہے، یہ حسد سے اخف ہے"۔ 

علامہ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ عسقلانی -رحمه الله تعالی- "ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﻱ"میں فرماتے ہیں:

"ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﺍﻟﻤﺬﻛﻮﺭ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻬﻮ ﺍﻟﻐﺒﻄﺔ، ﻭﺃﻃﻠﻖ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻣﺠﺎﺯﺍ، ﻭﻫﻲ ﺃﻥ ﻳﺘﻤﻨﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﻟﻐﻴﺮﻩ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﻝ ﻋﻨﻪ، ﻭﺍﻟﺤﺮﺹ ﻋﻠﻰ ﻫﺬﺍ یسمی منافسة".

"حديث میں جو حسد مذكور ہوا، اس سے مراد رشک ہے، مجازا اسے حسد کہا گیا ہے، رشک ایسی ارزو کرنا کہ اس کے پاس بھی دوسرے کی طرح ہو، اور فرد اخر سے وہ چیز زائل نہ ہو اور اس پر حرص رکھنے کو منافست کہتے ہیں"۔

★ علامہ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ رحمه الله تعالی اس حديث کی شرح میں فرماتے ہیں:

"ﻓﻜﺄﻧﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ- ﻗﺎﻝ ﻻ ﺣﺴﺪ، ﻭﻟﻜﻦ ﺍﻟﺤﺴﺪ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﻗﻴﺎﻡ ﺍﻟﻠﻴﻞ ﻭﺍﻟﻨﻬﺎﺭ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﻓﻲ ﻧﻔﻘﺔ ﺍﻟﻤﺎﻝ ﻓﻲ ﺣﻘﻪ، ﻭﺗﻌﻠﻴﻢ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺃﻫﻠﻪ".

★ مال ودولت کو  فی سبیل الله خرچ کرے، اپنی نفسیاتی خواہش، فساد اور اسراف کے مد میں نہ اڑائے، الله تعالی کے ارشاد {ﻣَﻦْ ﻋَﻤِﻞَ ﺻَﺎﻟِﺤﺎً ﻣِﻦْ ﺫَﻛَﺮٍ ﺃَﻭْ ﺃُﻧْﺜَﻰ ﻭَﻫُﻮَ ﻣُﺆْﻣِﻦٌ ﻓَﻠَﻨُﺤْﻴِﻴَﻨَّﻪُ ﺣَﻴَﺎﺓً ﻃَﻴِّﺒَﺔ} کا مصداق ہو رہے۔

★ یہ حديث اعمال خير میں منافست کی اباحت پر دلالت کرتی ہے، جس کی اجازت قران کریم میں بھی ائی ہے، ارشاد ربانی ہے:
{ﻓﺎﺳﺘﺒﻘﻮﺍ ﺍﻟﺨﯿﺮﺍﺕ}. [ﺍﻟﻤﺎﺋﺪﮦ] .
"تو ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ مسابقت کرو".

★ مال وزر کی خواہش تکمیل شہوات کے لیے ہرگز نہ کرے۔

★ حديث میں ایک لفظ حكمت بھی مذكور ہوا ہے، حكمت قول وفعل کے اتفاق کو کہتے ہیں۔

سابقہ معنی کے علاوہ "ﺣﻜﻤﺔ" کے کئی معانی ہیں، جس میں سے چند بطور ہدیہ پیش ہیں:

حكمت بمعنی قران:
امام بخاری -رحمه الله تعالی- نے سابقہ حديث کو صحابہ رسول حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- سے بھی روایت کیا ہے، اس روایت میں ہے:

"ﻻ ﺣﺴﺪ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ... ﻭﺭﺟﻞ ﺁﺗﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﻬﻮ ﻳﻘﻮﻡ ﺑﻪ ﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻠﻴﻞ، ﻭﺁﻧﺎﺀ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ".

حكمت بمعنی سنت:
ارشاد ربانی ہے: {ﻭَﺃَﻧْﺰَﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻚَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﻭَﺍﻟْﺤِﻜْﻤَﺔَ}. [ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ 113].

حكمت بمعنی دینی معرفت:
حضرت ﺍﺑﻦ ﻭﻫﺐ کہتے ہیں: 
ﻗﻠﺖ ﻟﻤﺎﻟﻚ: ﻣﺎ ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ؟ 
ﻗﺎﻝ: ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﺪﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻔﻘﻪ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻳﻦ، ﻭﺍﻻﺗﺒﺎﻉ ﻟﻪ. 

"میں نے امام مالک سے پوچھا: حكمت کیا ہے؟
فرمایا: دین کی معرفت، فقہ کی سمجھ اور اس کی اتباع"-

حكمت بمعنی دین:
ﺍﺑﻦ ﺯﻳﺪ کہتے ہیں:
"ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﻌﺮﻓﻮﻧﻪ ﺇﻻ ﺑﻪ -ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ-، ﻳﻌﻠﻤﻬﻢ ﺇﻳﺎﻫﺎ".

★ امام نووی -رحمه الله تعالی- فرماتے ہیں:
"ﺍﻟﺤِﻜْﻤَﺔ: ﻋﺒﺎﺭﺓ ﻋﻦ ﺍﻟﻌﻠﻢ، ﺍﻟﻤﺘَّﺼﻒ ﺑﺎﻷﺣﻜﺎﻡ، ﺍﻟﻤﺸﺘﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ، ﺍﻟﻤﺼﺤﻮﺏ ﺑﻨﻔﺎﺫ ﺍﻟﺒﺼﻴﺮﺓ، ﻭﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﻨَّﻔﺲ، ﻭﺗﺤﻘﻴﻖ ﺍﻟﺤﻖِّ، ﻭﺍﻟﻌﻤﻞ ﺑﻪ، ﻭﺍﻟﺼﺪِّ ﻋﻦ ﺍﺗِّﺒﺎﻉ ﺍﻟﻬﻮﻯ ﻭﺍﻟﺒﺎﻃﻞ، ﻭﺍﻟﺤَﻜِﻴﻢ ﻣﻦ ﻟﻪ ﺫﻟﻚ".

★ سابقہ حديث میں حكمت سے کیا مقصود ہے؟ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، عام طور پہ دین اور اس کی فہم مراد لیا گیا ہے، جس کا حصول علم کے واسطہ سے ممکن ہے۔

حرف اخر: 
روز قیامت مال ودولت اور دوسرے اعمال کے ساتھ علم کی بھی پرشش ہوگی، حديث شريف میں ہے: "ﻭﻋﻦ علمه ﻓﯿﻢ ﻓﻌﻞ".

لہذا اہل ایمان کو غير نفع بخش علم سے اجتناب کرنا چاہیے، الله تعالی کی بارگاہ میں ہمیشہ  یہ دعا کرتے رہنا چاہیے:

 "اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع".
"ﺍﮮ ﺍلله، ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻧﻔﻊ ﺑﺨﺶ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ"-
---------------------

الأربعاء، 15 مايو 2019

تھک گیا میں بھی نیند سے ہارا

شریف اپنی شرافت سے ہارا
رذیل اپنی رذالت سے ہارا

کی حمایت جو غریبوں کی
شہ زوروں کی دبنگ سے ہارا

کھڑا ہوا انتخاب میں ظالم
عدل وانصاف ظلم سے ہارا

سنا کر قصہ غم سو گیے سبھی
تھک گیا میں بھی نیند سے ہارا

اسلام میں علم کی اہمیت وافادیت


کاتب..................... أبو الفؤاد توحيد احمد عليمی

...........★★★.............

حديث شریف:
حضرت ابو ہرﻳﺮﺓ- ﺭضی ﺍﻟﻠﻪ تعالی ﻋﻨﻪ -فرماتے ہیں کہ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ- ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ تعالی ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ- نے ارشاد فرمایا:

(( ﻣَﻦْ ﺗَﻌَﻠَّﻢَ ﻋِﻠْﻤًﺎ ﻣِﻤَّﺎ ﻳُﺒْﺘَﻐٰﯽ ﺑِﻪِ ﻭَﺟْﻪُ ﺍﷲِ، ﻟَﺎ ﻳَﺘَﻌَﻠَّﻤُﻪُ ﺇِﻻَّ ﻟِﻴُﺼِﻴْﺐَ ﺑِﻪِ ﻋَﺮَﺿًﺎ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ,ﻟَﻢْ ﻳَﺠِﺪْ ﻋَﺮْﻑَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﻘِﻴَﺎﻣَﺔ)). [مسند امام احمد بن حنبل :2/338 ,حديث نمبر :8438 ,سنن اﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﻦ ,ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻌﻠﻢ ,ﺑﺎﺏ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻟﻐﻴﺮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽ :3/323 ,حديث نمبر : 3664 ، سنن ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ ,ﺍﻟﻤﻘﺪﻣﺔ ,ﺑﺎﺏ ﺍﻻﻧﺘﻘﺎﻉ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﻭﺍﻟﻌﻤﻞ ﺑﻪ :1/92 , حديث نمبر :252].

"ﺟﺲ ﻧﮯ ﻋﻠﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ الله -عزوجل- ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، مگر ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﺩﻧﯿﺎ کا ﻣﺎﻝ کمانے ﮐﮯ لیے ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ روز ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ سے محروم ہوگا"۔

اس حديث سے مستفاد اہم نکات:
★ اس حديث میں" عرض "کا لفظ ایا ہے، "عرض" کو اگر راء کے زبر سے پڑھا جائے تو اس کا معنی دنیاوی مال ومتاع ہوتا ہے، جس سے نیک وبد سبھی استفادہ کرتے ہیں، جب کہ راء کو سکون سے پڑھنے کی صورت میں روپیہ پیسہ کے علاوہ دوسرے مال ومتاع مقصود ہوتے ہیں، "عرض "اس لیے کہا جاتا کیونکہ وہ" ﺯﺍﺋﻞ ﻏﻴﺮ ﺑﺎﻕ "ہوتا ہے-

اللہ تعالی نے دنیا کی خواہش سے منع فرمایا ہے، اور اس کی مذمت کی ہے، ﻓﺮﻣﺎﻥِ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ: {ﻗُﻞْ ﻣَﺘَﺎﻉُ ﺍﻟﺪُّﻧْﻴَﺎ ﻗَﻠِﻴﻞٌ ﻭَﺍﻟْﺂﺧِﺮَﺓُ ﺧَﻴْﺮٌ ﻟِّﻤَﻦِ ﺍﺗَّﻘَﻰٰ}.

اہل ایمان کو جگہ جگہ فکر اخرت کی ترغيب دلائی گئی ہے، {ﻭَﻣَﻦْ ﺃَﺭَﺍﺩَ ﺍﻵَﺧِﺮَﺓَ ﻭَﺳَﻌَﻰ ﻟَﻬَﺎ ﺳَﻌْﻴَﻬَﺎ ﻭَﻫُﻮَ ﻣُﺆْﻣِﻦٌ ﻓَﺄُﻭﻟَﺌِﻚَ ﻛَﺎﻥَ ﺳَﻌْﻴُﻬُﻢْ ﻣَﺸْﻜُﻮﺭًﺍ}.

★ اس حديث میں "عرف الجنة" کا لفظ ہے، جس کا معنی"جنت کی خوشبو" ہوتا ہے، حضرت امام احمد بن حنبل نے اپنی روایت میں اس لفظ کی تشریح کی ہے، فرماتے ہیں: "ﻗَﺎﻝَ ﺳُﺮَﻳْﺞٌ ﻓِﻲ ﺣَﺪِﻳﺜِﻪِ: ﻳَﻌْﻨِﻲ ﺭِﻳﺤَﻬَﺎ".

★ آپ -علیه الصلاة والسلام- نے کسی خاص علم کی قید نہیں فرمائی، مسلمان کو چاہیے کہ ہر علم کی حصوليابی کے لیے سعی کرے، اور انسانیت کو فائدہ پہونچائے، جس کا ان شاء الله تعالی اسے عظيم اجر ملے گا، کیوں کہ یہ باب احسان سے ہے، الله تعالی ارشاد فرماتا ہے: { إن الله لا يضيع أجر المحسنين}.

"ﯾﻘﯿﻨﺎ اللہ تعالی احسان کرنے والوں ﮐﺎ ﺍﺟﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ہے"-

★ خلوص نیت سے علم کا حصول کرے، ہر عمل کی یہ پہلی سیڑھی ہے، اسی پہ سارے اعمال کا دارومدار ہے، ہمیشہ رضائے مولی کو پیش نظر رکھے-

★ جس علم کو رضاے الہی کے لیے حاصل کیا ہے، اسے کمائی کا ذريعہ نہ بنائے، ہمیشہ علم کی پاکیزگی کو برقرار رکھے -

★ وہ علم جسے للہیت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، اسے ذريعہ معاش یا حصول دنیا کا وسیلہ بنانے والا روز قیامت جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا-

★ جنتی خوشبو کئی سال مسافت کی دوری سے سونگھی جا سکتی ہے، صحابہ کرام -رضوان الله تعالی اجمعین- نے کئی احاديث روایت کی ہے، جس میں مختلف مسافت کا ذكر ہے۔

چنان چہ حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- فرماتے ہیں:

"ﻭﺇﻥ ﺭﻳﺤﻬﺎ ﻟﻴﻮﺟﺪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺳﺒﻌﻴﻦ ﺧﺮﻳﻔﺎ".

"یقینا جنت کی خوشبو ستر سال کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے"۔ 

امام طبرانی نے" المعجم ﺍﻷﻭﺳﻂ "میں حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- سے روایت کیا ہے کہ:

"ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﻣﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ "
"سو سال کی مسافت سے"

اور حضرت ابو بکرہ سے امام طبرانی نے جو روایت کی ہے، اس میں پانچ سو سال ہے۔

"موطا "کی ایک حديث میں بھی پانچ سو سال کا قول مذكور ہوا ہے، اس حديث کے مطابق:

"ﺇﻥ ﺭﻳﺤﻬﺎ ﻳﻮﺟﺪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ".

"ﺍلمعجم الصغير "اور" مسند ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ "میں ایک ہزار سال کا قول بھی آیا ہے: "ﺇﻥ ﺭﻳﺢ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻳﺪﺭﻙ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺃﻟﻒ ﻋﺎﻡ".

بعد مسافت کا اختلاف اعمال صالحہ کی وجہ سے ہے، وہ نفوس قدسیہ جن کے درجات بلند ہیں، وہ ہزار سال کی دور سے ہی اس کا ادراک کر لیں گے۔

شیخ ابن عربی فرماتے ہیں:

"ﺭﻳﺢ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻻ ﻳﺪﺭﻙ ﺑﻄﺒﻴﻌﺔ ,ﻭﻻ ﻋﺎﺩﺓ, ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺪﺭﻙ ﺑﻤﺎ ﻳﺨﻠﻖ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺇﺩﺭﺍﻛﻪ، ﻓﺘﺎﺭﺓ ﻳﺪﺭﻛﻪ ﻣﻦ ﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺳﺒﻌﻴﻦ، ﻭﺗﺎﺭﺓ ﻣﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ خمس مئة".

چنان چہ جنت کی خوشبو کو خواص دنیا میں ہی محسوس کر لتیے ہیں، اور نیک لوگوں کو روح کے قفس عنصری سے نکلتے ہی اس کی خوشخبری دے دی جاتی ہے، نیکوں کی روحوں سے کہا جاتا ہے: 

"ﺍﺧْﺮُﺟِﻲ ﺣَﻤِﻴﺪَﺓً، ﻭَﺃَﺑْﺸِﺮِﻱ ﺑِﺮَﻭْﺡٍ، ﻭَﺭَﻳْﺤَﺎﻥٍ، ﻭَﺭَﺏٍّ ﻏَﻴْﺮِ ﻏَﻀْﺒَﺎﻥ".

سوال قبر کے بعد نیکوں کو جو نیگ ملتا ہے، اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:

"ﻭَﺍﻓْﺘَﺤُﻮﺍ ﻟَﻪُ ﺑَﺎﺑًﺎ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ . ﻗَﺎﻝَ : ﻓَﻴَﺄْﺗِﻴﻪِ ﻣِﻦْ ﺭَﻭْﺣِﻬَﺎ، ﻭَﻃِﻴﺒِﻬَﺎ".

★ جنت کی خوشبو جس کی بشارت قران وحديث میں ہے، اس سے مبینہ شحص کے علاوہ کئی دوسرے لوگ بھی محروم رہیں گے، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

 معاہد کا قاتل:

(ﻣَﻦْ ﻗَﺘَﻞَ ﻣُﻌَﺎﻫَﺪًﺍ ﻟَﻢْ ﻳَﺮَﺡْ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔِ). [رﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ].
"ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ معاہد ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺎ، ﻭﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ"-

 نسب بدلنے والا:

(ﻣَﻦِ ﺍﺩَّﻋَﻰ ﺇِﻟَﻰ ﻏَﻴْﺮِ ﺃَﺑِﻴﻪِ ﻟَﻢْ ﻳَﺮَﺡْ ﺭِﻳﺢَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ). [رﻭﺍﻩ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ].

"ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا"۔

نصیحت نہ کرنے والا حاكم:

(ﻣَﺎ ﻣِﻦْ ﻋَﺒْﺪٍ ﺍﺳْﺘَﺮْﻋَﺎﻩُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺭَﻋِﻴَّﺔً، ﻓَﻠَﻢْ ﻳَﺤُﻄْﻬَﺎ ﺑِﻨَﺼِﻴﺤَﺔٍ، ﺇِﻟَّﺎ ﻟَﻢْ ﻳَﺠِﺪْ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟﺠَﻨَّﺔِ). [ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺸﻴﺨﺎن].

"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺲ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﻣﺎ تحت رعیت کر ﺩﮮ، ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ، ﻭﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ"۔

 کالا خضاب استعمال کرنے والا:

(ﻳَﻜُﻮﻥُ ﻗَﻮْﻡٌ ﻓِﻲ ﺁﺧِﺮِ ﺍﻟﺰَّﻣَﺎﻥ، ﻳَﺨْﻀِﺒُﻮﻥَ ﺑِﻬَﺬَﺍ ﺍﻟﺴَّﻮَﺍﺩِ ﻛَﺤَﻮَﺍﺻِﻞ ﺍﻟْﺤَﻤَﺎﻡ,ِ ﻟَﺎ ﻳَﺠِﺪُﻭﻥَ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔَ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ). [رواہ ابو داود].

"ﺁﺧﺮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻡ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﻮ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﻮﭨﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻻ ﺧﻀﺎﺏ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﻮﮔﯽ ، ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﻨّﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ"۔

بلا سبب طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت:

(ﺃَﻳُّﻤَﺎ ﺍﻣْﺮَﺃَﺓٍ ﺳَﺄَﻟَﺖْ ﺯَﻭْﺟَﻬَﺎ ﺍﻟﻄَّﻠَﺎﻕَ ﻣِﻦْ ﻏَﻴْﺮِ ﺑَﺄْﺱٍ ﻓَﺤَﺮَﺍﻡٌ ﻋَﻠَﻴْﻬَﺎ ﺭَﺍﺋِﺤَﺔُ ﺍﻟْﺠَﻨَّﺔِ). [ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ].
"ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ بلا ﺳﺒﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ,ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺣﺮﺍﻡ ہے"۔

والدین کا عاق کیا ہوا اور صلہ رحمی نہ کرنے والا:

(ﻭَﺍﻟﻠَّﻪِ ﻻ ﻳَﺠِﺪُ ﺭِﻳﺤَﻬَﺎ ﻋَﺎﻕٌّ ، ﻭَﻻ ﻗَﺎﻃِﻊُ ﺭَﺣِﻢٍ). [ﺻﻔﺔ ﺍﻟﺠﻨﺔ ﻷﺑﻲ ﻧﻌﻴﻢ].

"ریان" روزہ داروں کا جنتی دروازہ


ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
_*_-*_-*_-*_-*_-*_-*_-*_

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين،  وعلى آله وأصحابه وأتباعه إلى يوم الدين. 
أما بعد،

ریان عربی زبان کا لفظ ہے، مذکر ہے، بطور علم مستعمل ہے، روی يروي رَيْوان سے آیا ہے، اس لفظ کا مؤنث "ریا" اور "ریانہ" آتا ہے۔

پیاس کے بعد سیراب ہونا اس کا معنی ہے، اس کا ایک معنی جسم کا گوشت سے بھرا ہونا بھی ہے۔

اس لفظ کا تلفظ راء کے زبر اور یاء کے تشدید مع زبر کے ہے، بلادِ شام، خلیج اور برصغیر میں بچوں کا یہ نام رکھا جاتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ جنت کے کل آٹھ دروازہ ہیں، الفاظ حدیث یہ ہیں:

(مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنّ لاَ إِلَهَ إِلاّ الله وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنّ مُحَمّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنّ عِيسَىَ عَبْدُ اللّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنّ الْجَنّةَ حَقّ، وَأَنّ النّارَ حَقّ، أَدْخَلَهُ الله مِنْ أَيّ أَبْوَابِ الْجَنّةِ الثّمَانِيَةِ شَاءَ). [متفق علیہ]

"جس نے یہ کہا: میں گواہی دیتا ہوں الله کے سوا کوئی کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور بے شک محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور بے شک عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے مریم کی طرف القا کیا، اور اس کی روح ہیں، اور بے شک جنت حق ہے، اور جہنم حق ہے، الله پاک اسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے وہ داخل ہونا چاہیے داخل کرے گا"۔

چناں چہ جنت کے سب دروازوں کے مخصوص نام ہیں، بتحقیق علامہ ابن حجر عسقلانی -رحمه الله تعالى- جنت کے آٹھ دروازے درج ذیل ہیں:

1: بَابِ الصَّلاَةِ
2:بَابُ الجِهَادِ
3:بَابُ الرَّيَّانِ
4:بَابُ الصَّدَقَةِ 
5: بَابُ الْحَجّ
6:الْبَابُ الْأَيْمَنُ
7:بَابُ الذِّكْرِ او بَابَ الْعِلْمِ 
8:بَابُ الْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ۔

یہ سارے دروازے رمضان میں مؤمنین کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، رسول اکرم -صلی الله علیه وسلم- فرماتے ہیں:

(إذا دخَل رمضان، فُتحِت أبواب الجَنَّة). [متفق عليه].

"جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں"۔

انہیں دروازوں میں ایک کا نام "ریان" ہے، حدیث شریف میں بھی اس کا ذکر  وارد ہوا ہے، سرکار دو عالم -صلی اللہ علیہ وسلم- فرماتے ہیں:

(إِنَّ فِي الجَنَّة بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يدْخُلُ مِنْهُ الصَّائمونَ يومَ القِيامةِ، لاَ يدخلُ مِنْه أَحدٌ غَيرهُم، يقالُ: أَينَ الصَّائمُونَ؟
فَيقومونَ لاَ يدخلُ مِنهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فإِذا دَخَلوا أُغلِقَ فَلَم يدخلْ مِنْهُ أَحَدٌ). [متفق عليه].

(جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کو "ریان" کہتے ہیں، روز قیامت روزہ دار ہی اس سے داخل ہوں گے، کوئی دوسرا داخل نہ ہو گا۔

کہا جائے گا کہ: روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے، اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔

جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ بند ہو جائے گا، اور اس میں کوئی داخل نہ ہو  گا)۔

ابن جوزی -رحمہ الله تعالی- "ریان" کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس دروازے کو "باب ریان" [بہت زیادہ سیراب کرنے والا] اس لیے کہا گیا ہے کہ روزے داروں کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیوں کہ پیاسے روزہ دار کا بدلہ یہی بنتا ہے کہ اسے سیراب کیا جائے، اس لیے سیرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے "ریان" کہا گیا"۔ [كشف المشكل: ص391، ج 3]۔

ملا علی قاری رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:

"یا تو وہ بنفسہ ریان ہے، کیوں کہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں، اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔

یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی، اور ترو تازگی ونظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی"۔ [مرقاة المفاتيح: ص 230، ج 4]

06/مئی، بروز پیر، 2019ء

تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!

کاتب_ ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
///_///_///_///_///_///_///_///_///

الحمد لله الذي أنزل {ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم}. [الأنعام : 108].

والصلاة والسلام على القائل (لا تَسُبُّوا الأمواتَ، فَإنَّهُمْ قَدْ أفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّموا).

وعلى آله الطاهرين، وأصحابه العادلين، وأتباعه إلى يوم الدين.

أما بعد،

وجود انسانی خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے، یہ حضرت انسان ہیں، جن کو اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنایا گیا، پھر ان میں سے کچھ افراد کو چنا گیا، انھیں نعمت ایمان سے نوازا گیا، اور امت محمد ﷺ میں سے بنایا گیا۔

غرض کہ کائنات کی ساری اعلی صفات ذات مومن میں ودیعت کر دی گئی، اور بحر وبر میں یہ اعلان بھی کردیا گیا:

 {وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ}. [بقره: 221].

"اور تحقیق کہ مومن بندہ مشرک سے زیادہ بہتر ہے"۔

پھر ان مومن بندوں میں درجہ بندی کی گئی، کوئی اعلی درجہ پر فائز ہوا، کوئی متوسط درجے میں پہونچا، کسی کو ادنی درجہ دستیاب ہوا، اور یہ درجات ان کے اعمال صالحہ کے باعث انھیں ملے۔

چناں چہ جس نے حکم الہی کی اتباع کی، وہ دارین میں سر خرو ہوگیا، انھیں احکام الہیہ میں بے ہودہ گوئی سے ابتعاد کا بھی حکم ہے، جو معاشرہ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔

جس امت کو {أمة وسطا} کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، جسے امم عالم کی رہبری کی ذمہ داری سونپی گئی، آج وہی سب وشتم کے قعر میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔

منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی نے بھت ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے:

ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی، تو ہے ہر بات پر گالی 
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!

آج عالم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے چند اخص الخواص مواقف کو ہر جگہ بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی احکام {وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}. [آل عمران: 104]، اور (ليس المؤمن بالطعَّان ولا اللعَّان، ولا الفاحش ولا البَذِيء) سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔

قرآن کریم نے تو اغیار سے بھی حسن معاشرت کا درس دیا ہے، چناں چہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا، اور یہ کہا گیا کہ اس سے نرم گوئی اختیار کریں، {فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا}.

اسی طرح عام مسلمانوں کو بتوں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، تاکہ کفار اپنی جہالت کی وجہ سے خدائے پاک کو گالی نہ دیں، ارشادِ باری ہے:

{وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ}. [انعام: 108].

"اور تم لوگ انہیں گالی نہ دو، جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکارتے ہیں، تو یہ لوگ عداوتا الله کو جہالت کے باعث گالی دیں گے"-

رسول اعظم ﷺ فرماتے ہیں:

(الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ).
[صحيح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة].

"آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں"۔

دوسری حدیث میں ہے:

(سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ). 

"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے"۔

اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے شیطان رجیم کو بھی گالی دینے سے باز رکھا ہے، آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:

 (لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره).

"تم لوگ شیطان کو گالی نہ دو، تم لوگ اس کے شر سے الله کی پناہ مانگو"۔

امام مناوی -رحمه الله تعالى- اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"إن السب لا يدفع ضره، ولا يغني من عداوته شيئا؛ ولكن تعوذوا بالله من شره؛ فإنه المالك لأمره، الدافع لكيده عمن شاء من عباده". [شرح الجامع الصغير].

"بے شک گالی شیطان کے ضرر کو دور نہیں کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی عداوت سے کوئی چیز بچا سکتی ہے، مگر الله تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگو، الله تعالی اس کے معاملہ کا مالک ہے، اس کے مکر کو اپنے جس بندے سے چاہے دفع کرنے والا ہے"۔

ایک دوسری حدیث شریف میں ہے، روز جزاء ایک فرد کو لایا جائے گا، اس کے پاس بھت نیکیاں ہوں گی، مگر اس سے یہ نیکیاں لے لی جائیں گی، اور لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، یہ فرد کوئی اور نہیں بلکہ "گالی باز" ہوگا، الفاظ حدیث یہ ہیں:

(إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا. فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ.

فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ).

"میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ حاضر ہوگا، اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔

اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس کے پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔

اے مسلمانو، آخرت کا دن بھت ہی ہول ناک ہوگا، اس روز نفسی نفسی کا عالم ہوگا، ایک ایک نیکی کی بڑی اہمیت ہوگی، اپنی نیکیوں کا ضیاع خود اپنی زبان سے نہ کرو، اچھی بات کرو، جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}. [البقرة:83].

 جان لو الله رب العزت بری بات کے اظہار کو سخت  نا پسند کرتا ہے:

{لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ}. [نساء: 148].

"الله بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے کلام کو"۔

اے رسول کے دیوانو، اپنے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناؤ، ام المومنین حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- فرماتی ہیں:

"لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- فاحشًا، ولا متفحشًا، ولا صخابًا في الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح".

"رسول اکرم ﷺ بد گو، بد زبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، مگر آپ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے تھے"۔ 

بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ: 
(اللهم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق، لا يهدي لأحسنها إلا أنت، وقني سيء الأعمال، وسيء الأخلاق، لا يقي سيئها إلا أنت). [نسائی].
[1رمضان 1440/ 7/مئی 2019]

حفاظت نگاہ ایک ملی فریضہ

کاتب: _ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
_*/-*/-*/-*/-*/-*/-*/-*/-*/-*/-*/-*_

اسلام ایک صالح معاشرہ کا بانی ہے، وہ معاشرے کے ہر فرد کو عزت سے نوازتا ہے، اور انھیں سماج میں اعلی مقام عطا کرتا ہے۔

اس عزت اور مقام کو فقط دولت مندی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی قوانین کی پاسداری لازمی ہے۔

پاکیزہ معاشرہ کے قیام کے لیے اسلام نے کئی قوانین وضع کیے ہیں، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ}. [حجرات: 12]۔

اس آیت کریمہ کے اہم نکات یہ ہیں:
- ایمان بالله تعالی
- بھت زیادہ بدگمانی سے اجتناب
- ایک دوسرے کی عدم تجسس
- غیبت سے پرہیز
- خوف خدا

زیر نظر تحریر نمبر تین سے متعلق ہے، جاسوسی کی کئی قسم ہے، ایک قسم وہ ہے جو حکومتی سطح پر ہوتی ہے، اور مشتبہ فرد کو زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔

یوں ہی عالمی پیمانے پر جاسوسی کا نظام پھیلا ہے، ایک ملک دوسرے ملک کے تجسس میں لگا رہتا ہے۔

تجسس کی ایک عوامی قسم بھی ہے، اس میں معاشرے کی اکثریت ملوث ہے، عام طور سے لوگوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا ہے، تجسس کی اس قسم کا نام "نظر کی بے احتیاطی" ہے۔

یہ قسم معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہے، عوامی سطح پر اس گھناؤنے عمل کو اپنایا جا رہا ہے، تسکین نفس کے لیے راہ چلتے گھروں میں نگاہ دوڑائی جا رہی ہے، اور ایک دوسرے کے محرمات پر مطلع ہونے کے لیے مختلف حربے اپنائے جا رہے ہیں۔

یہ اسلامی معاشرتی اصول وضوابط کی کھلی مخالفت ہے، رسول رحمت ﷺ نے اسے سخت ناپسند فرمایا ہے، حدیث شریف میں ہے:

"اطلع رجل من جحر في حجر النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومع النبي -صلى الله عليه وسلم- مدرى، يحك به رأسه، فقال: (لو أعلم أنك تنظر لطعنت به في عينك، إنما جعل الاستئذان من أجل البصر)". [صحيح بخارى].

"ایک شخص نے سوراخ سے رسول الله ﷺ کے حجرہ میں جھانکا، اس وقت آپ کے دست مبارک میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا،  اس سے اپنا سر کھجلا رہے تھے، آپ نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو جھانک رہا ہے، تو ضرور میں تیری آنکھ میں اسے مار دیتا، بے شک اجازت طلب کرنے کا حکم نظر بازی کی وجہ سے ہوا ہے"۔

دوسری حدیث میں ہے:
"من اطلع في بيت قوم بغير إذنهم فقد حل لهم أن يفقئوا عينه".

"جو شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالے تو گھر والوں کے لیے اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے"۔

دوسرے خلیفہ حضرت عمر -رضی الله عنہ" فرماتے ہیں:

جس شخص نے داخلے کی اجازت سے پہلے گھر کا صحن آنکھ بھر کر دیکھا، اس نے گناہ اور فسق کا کام کیا۔ [شعب الایمان:۶/۴۴۴]

یہ نگاہوں کی عدم حفاظت ہی ہے، جس نے تقوی کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دیں، جنھیں {قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} کا فارمولہ دیا گیا، اور جن کندھوں پر ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کا ذمہ تھا، وہی آمادہ افساد نظر آنے لگے، اور خود اپنی ہی رگوں میں زہریلا مواد داخل کرنے پر بر سر پیکار ہوگیے۔

الله تعالی نے معاشرتی جرائم اور فحاشیوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے حکم دیا تھا:

(إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ من سِهَامِ إِبْلِيسَ مَسْمُومٌ، من تَرَكَهَا مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا، يَجِدُ حَلاوَتَهُ في قَلْبِهِ).

"بے شک نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑدے، تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا"۔

سرکار اکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابو طالب -رضی الله تعالی عنہ- سے ارشاد فرمایا تھا:

(يا علي لا تتبع النظر النظرة، فإن لك الأولى وليست لك الآخرة). [رواه أحمد والترمذي وأبو داود]. 

"اے علی، پہلی نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ پڑے، اس لیے کہ پہلی معاف ہے، مگر دوسری تمھارے لیے نہیں ہے"۔

صحابہ رسول حضرت جریر -رضی الله تعالی عنہ- کہتے ہیں:

"سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: عن نظر الفجأة؟ فأمرني أن أصرف بصري".

"میں نے رسالت مآب -صلی الله تعالی علیہ وسلم- سے اچانک سے پڑ جانے والی نظر کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں نگاہ پھیر لوں"۔

آہ، نفس امارہ کا غلبہ ہر چار سو ہے، محرمات سے نگاہیں سینکیں جا رہی ہیں، احکام الہی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں اتارنے کی سعی متروک ہو رہی ہے۔

اے اسیر نفس، کیا تو نے فرمان خداوندی نہیں سنا: 

{وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ}. [اعراف:  176].

"اس نے اپنی خواہش نفس کی اتباع کی، اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے"۔

اے اصلاح معاشرہ کے خواہش مند، اس امر کی ابتداء خود سے کر، رب کریم فرماتا ہے:

{إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ}. [الرعد: 11].

"بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،  یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ تبدیل کر لیں"۔

علامہ اقبال کہتے ہیں:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
°=°=°=°=°=°=°=°=
6 مئی، بروز پیر، 2019ء،  ممبئی۔ 
8: 58 PM